آج کل اُمتِ مسلمہ خاص اور دیگر عوام الناس عام طور پرایک عجیب و غریب ذہنی خلفشار کا شکار ہے۔ ایک طرف تماشائی دنیا کے سامنے، ہزار نہتے اور بے گناہ افراد کا قتلِ عام بھی فلسطین کو شکست نہیں دے سکا۔ دوسری جانب صیہونی پروپیگنڈہ، شہید ہونے والے معصوم بچوں اور خواتین کو دہشت گرد قرار دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔امریکہ بہادر کی گڈ بکس میں رہنے کے خواہش مند، دعا کیلئے بھی ہاتھ اٹھاتے ہیں تو سمجھ نہیں آتا کہ کیا دعا کریں۔ نام نہاد سپر پاور اور مغربی دنیا، اپنے ہی پیدا کئے ہوئے فتنہ اسرائیل کے قبیح اور سنگین نتائج کو اب مزید نہیں بھگت پا رہی۔ اس انہونی کی وجہ یہ ہے کہ اس کی نئی نسل اب اس بوجھ کو کسی صورت بھی اٹھانے کیلئے تیار نہیں لگ رہی۔ امریکی رائے عامہ کے سارے سروے، بڑے واضح انداز میں اسی حقیقت کی شہادت دے رہے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ جس شخص کے ہاتھوں میں سپر پاور کی باگ ڈور ہے وہ کوئی روائتی سیاست دان نہیں کہ زیادہ دیر تک اس بوجھ کو اٹھانے کی کوئی منصوبہ بندی کرسکے۔ بلکہ وہ تو استاد قمر جلالوی کے ان اشعار کا قائل معلوم ہوتا ہے۔
کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
اس حالتِ نزع میں سپر پاور کے سپر مین کو انتہائی کمزور اور وہن کا شکار، چند اسلامی ممالک ہی نظر آتے ہیں جو اس کا یہ بوجھ ہلکا کر سکیں۔ اپنے داخلی حالات کے پیشِ نظر، ہمارا پیارا ملک پاکستان، اس معاملے میں پیش پیش ہے۔ عرب ممالک تو پہلے ہی غلامی میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ رہے ترک برادران تو وہ تو پچھلے سو سال سے اپنے کندھوں کو مغرب کے مسائل حل کرنے کیلئے استعمال کرتے تھکتے نہیں۔ مسلمان ریاستوں کی اس حالت زار کی وجہ، بخاری و مسلم کی اس حدیث میں بیان ہو ئی ہے۔علم اُٹھ جائے گا اور اللہ تعالی علم لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر نہیں نکالے گابلکہ علما کے چلے جانے کے ساتھ علم بھی چلا جائے گاحتیٰ کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا اور لوگ جاہلوں کو اپنے قائد اور پیشوا بنالیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ، یہ جہلا خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
صحیح بخاری ، صحیح مسلم: فلسطین کے مسلمانوں کی بدقسمتی یہی ہے کہ وہ ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جس کی پیش گوئی نبی اکرم ۖ نے مندرجہ بالا حدیث میں فرمائی تھی۔ ذہنی الجھا کی شکار انسانیت، آج فلسطین کے مظلوموں کی حمایت کرنے سے بالکل قاصر نظر آتی ہے۔ احمد فراز نے تو یہ اشعار معلوم نہیں کس سیاق و سباق میں کہے تھے مگر ہماری آجکل کی صورتحال، کچھ ایسی ہی ہے۔
کس طرف کو چلتی ہے اب ہوا، نہیں معلوم
ہاتھ اٹھا لیے سب نے اور دعا نہیں معلوم
موسموں کے چہروں سے زردیاں نہیں جاتیں
پھول کیوں نہیں لگتے خوشنما، نہیں معلوم
رہبروں کے تیور بھی، رہزنوں سے لگتے ہیں
کب کہاں پہ لٹ جائے قافلہ نہیں معلوم
ہم فراز شعروں سے دل کے زخم بھرتے ہیں
کیا کریں مسیحا کو جب دوا نہیں معلوم
٭٭٭















