فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
53

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! محبت نام ہے پسندیدہ چیز کی طرف میلان طبع کا، اگر یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ اس میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور مال و دولت اس پر قربان کر دیتا ہے۔ زلیخا کی مثال لیجئے جس نے یوسف علیہ السّلام کی محبت میں اپنا حسن اور مال و دولت قربان کردیا۔ زلیخا رضی اللہ عنھا کے پاس ستر اونٹوں کے بوجھ کے برابر جواہر اور موتی تھے جو عشق یوسف میں قربان کردیئے۔ جب بھی کوئی کہہ دیتا کہ میں نے یوسف علیہ السّلام کو دیکھا ہے تو وہ اسے بیش قیمت ہار دے دیتی۔ یہاں تک کہ کچھ بھی باقی نہ رہا، اس نے ہر چیز کا نام یوسف رکھ چھوڑا تھا۔ اور فرط محبت میں یوسف علیہ السّلام کے سوا سب کچھ بھول گئی تھی۔ جب آسمان کی طرف دیکھتی تو اسے ہر ستارے میں یوسف علیہ السّلام کا نام نظر آتا تھا۔ روایات میں ہے کہ جب زلیخا ایمان لائی اور حضرت یوسف علیہ السّلام کی زوجّیت میں داخل ہوئی تو سوائے عبادت وریاضت اور توجہ الی اللہ کے اسے کوئی کام نہ تھا۔ اگر اے یوسف علیہ السّلام دن کو اپنے پاس بلاتے تو کہتی رات کو آئوں گی اور رات کو بلاتے تو کہتی دن کو آئوں گی۔ تو یوسف علیہ السّلام نے فرمایا: زلیخا! تو تو میری محبت میں دیوانی تھی! جواب دیا: یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب میں آپ کی محبت کی ماہیت سے واقف نہ تھی۔ اب میں آپ کی محبت کی حقیقت پہچان چکی ہوں۔ اس لئے اب میری محبت میں تمہاری شرکت بھی گوارا نہیں۔ حضرت یوسف علیہ السّلام نے فرمایا: مجھے اللہ نے اس بات کا حکم فرمایا ہے اور مجھے بتلایا ہے کہ تیرے بطن سے اللہ تعالیٰ دو بیٹے پیدا کرے گا اور دونوں کو نبوت سے سرفراز فرمایا جائے گا، زلیخا نے کا اگر حکم خداوندی ہے تو میں تر تسلیم خم کرتی ہوں۔ اسے کہتے ہیں کہ عشق مجازی سے عشق حقیقی کی وادیوں میں قدم رکھا اللہ تعالیٰ اس کا ایک چھینٹا ہمیں بھی عطا فرما دے۔ مجنوں سے کسی نے پوچھا: تیرا نام کیا ہے؟ بولا لیلیٰ ! ایک دن اس سے کسی نے کہا: کیا لیلیٰ مر گئی ہے؟ مجنوں نے جواب دیا: لیلیٰ نہیں مری وہ تو میرے دل میں ہے اور میں ہی لیلیٰ ہوں۔ ایک دن جب مجنوں کا لیلیٰ کے گھر سے گزر ہوا تو وہ ستاروں کو دیکھتا ہوا گزرنے لگا کسی نے کہا: نیچے دیکھو شاید تمہیں لیلیٰ نظر آجائے۔ مجنوں بولا: میرے لئے لیلیٰ کے گھر کے اوپر چمکنے والے ستاروں کی زیارت ہی کافی ہے۔ محبت حقیقی کے دعوے داروں کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ جب حضرت منصور حلاّج کو قید میں اٹھارہ دن گزر گئے تو حضرت شبلی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس جا کر دریافت کیا: اے منصور محبت کیا ہے؟ منصور نے جواب دیا : آج نہیں کل یہ سوال کرنا جب دوسرا دن آیا اور ان کو قید سے نکال کر مقتل کی طرف لے گئے تو وہاں منصور نے شبلی کو دیکھ کر کہا: شبلی! محبت کی ابتداء جلنا اور انتہا قتل ہو جانا ہے۔ جب منصور رضی اللہ عنہ کی نگاہ حق بین نے اس حقیقت کو پہچان لیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر چیز باطل ہے اور ذلت الٰہی ہی حق ہے تو وہ اپنے نام تک کو بھول گئے۔ لہذا جب ان سے سوال کیا گیا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ تو جواب دیا کہ میں حق ہوں یعنی اناالحق۔ ”منتھی” میں ہے کہ محبت کا صدق تین چیزوں میں ظاہر ہوتا ہے محبّ محبوب کی باتوں کو سب سے اچھا سمجھتا ہے، اس کی مجلس کو تمام مجالس سے بہتر جانتا ہے اور اس کی رضا کو اوروں کی رضا پر ترجیح دیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ عشق پردہ دری کرنے والا اور رازوں کو افشاء کرنے والا ہے اور وجد ذکر کی شیرینی کے وقت روح کا غلبہ شوق کا بار اُٹھانے سے عاجز ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اگر وجد کی حالت میں انسان کا کوئی عضو بھی کاٹ لیا جائے تو اسے محسوس تک نہیں ہوگا ،ایک آدمی دریائے فرات کے کنارے نہا رہا تھا، اس نے سنا کہ کوئی شخص یہ آیت پڑھ رہا ہے۔ وَامْتَازْواالیّومَ ایّْھاَالمُجرِمُونَ اور آج الگ پھٹ جائو اے مجدمو!” یہ سنتے ہی وہ تڑپنے لگا اور ڈوب کر مر گیا محمد بن عبداللہ بغدادی رضی اللہ عنہ کرتے ہیں: میں نے بصرہ میں ایک بلند مقام پر کھڑے ہوئے ایک نوجوان کو دیکھا جو لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ جو عاشقوں کی موت مرنا چاہے اسے اس طرح مرنا چاہئے(کیونکہ عشق میں موت کے بغیر کوئی لطف نہیں) اتنا کہا اور خود کو وہاں سے گرا دیا۔ لوگوں نے جب اسے اٹھایا تو وہ دم توڑ چکا تھا۔ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ تصوف اپنی پسند کو ترک کر دینے کا نام ہے ایک شیخ سے عاشق کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: عاشق میل ملاپ سے دور، تنہائی پسند، غوروفکر میں ڈوبا ہوا اور چپ چاپ رہتا ہے جب اسے دیکھا جائے تو وہ نظر نہیں آتا۔ جب بلایا جائے تو سنتا نہیں، جب بات کی جائے تو سمجھتا نہیں اور جب اس پر کوئی مصیبت آجائے تو غمگین نہیں ہوتا وہ بھوک کی پرواہ اور برہنگی کا احساس نہیں رکھتا کسی کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتا بلکہ دھمکیوں میں لذت پاتا ہے۔ وہ تنہائی میں اللہ تعالیٰ سے التجائیں کرتا ہے اس کی رحمت سے انس ومحبت رکھتا ہے وہ دنیا کے لئے دنیا والوں سے نہیں جھگڑتا۔ ایک علامت یہ ہے کہ وہ اپنی تلخ آزمائش سے لطف اندوز ہوتا ہے اور محبوب جو کرتا ہے وہ اس پر خوش ہوتا ہے اور ایک علامت یہ ہے کہ تم اسے مسکراتا ہوا پائو گے اگرچہ اس کے دل میں محبوب کی طرف سے آگ سلگ رہی ہوتی ہے۔ بس اللہ پاک ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here