”دو باپ”

0
47
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

دو باپ !!! محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے آج کا موضوع پڑھ کر سب کو دھچکا تو لگا ہوگا لیکن جب آپ اس سچی کہانی اور مصنف پر آپ بیتی کو پڑھیں گے تو لگے گا دنیا میں وفا نام کی کوئی چیز باقی ہے اور ایسے اچھے لوگ بھی ہیں جو کسی کا احسان مانتے ہیں اور کسی کو اپنا بنالیں تو دل سے قدر کرتے ہیں، بسا اوقات دنیا کے بنائے رشتے اپنے خونی رشتوں سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں کیوں اس بات کا جواب تو آج تک میں نہیں پاسکا لیکن لوگوں کی آپ بیتیاں پڑھ کرجو احساس ہوا وہ بیان کردیا اب آپ مندرجہ زیل آپ بیتی پڑھیں اور سوچیں اس بارے میں جو کچھ بیان ہوا ،اس دنیا میں اس وقت بھی ایسے لوگ موجود ہیں ،جو کسی کو اپنا بنالیں تو دل و جان سے ان کو اپنا بنالیتے ہیں ۔ میرے والد صاحب کی موت دو دفعہ ہوئی ہے۔8 سال کے وقفے سے لیکن ایک ہی تاریخ کو۔ پہلے ان کی وفات 26 اکتوبر 2017 کو ہوئی تھی اور دوسری دفعہ کل پھر اسی 26 اکتوبر کو سنہ 1991 میں والد صاحب مجھے انجینئرنگ یونیورسٹی میں خود چھوڑنے آئے تھے۔ ان کی واپسی کے بعد اتنے بڑے شہر سے خوف آتا تھا کہ اتنے زیادہ لوگ ،اتنی ٹریفک اور اتنا شور۔ اس بڑے شہر کی پر پیچ گلیوں میں کہیں گم ہی نہ ہوجائیں۔ کم کم باہر نکلتے اور اپنا راستہ ناپتے۔ یونیورسٹی کے پہلے دن ہی عرفان جاوید سے سڑک پر چلتے ملاقات ہوگئی۔ ہم دونوں ایک ہی کلاس میں تھے۔ تعلق بنا تو وہ ایک دن مجھے اپنے گھر لاہور کینٹ لے گیا جہاں ان کے والدین سے ملاقات ہوئی۔ دیہاتی لڑکے کے لیے یہ گھر انتہائی شاندار تھا جس کی ہر ایک چیز وہ حیرت سے دیکھتا جارہا تھا۔ پھر گاہے بگاہے عرفان کے گھر کے چکر لگنے لگے۔ عرفان بھی میرے گاوں کندیاں آیا کیونکہ اس کا کوئی گاوں نہیں تھا اور وہ گاوں کی زندگی اور دیہاتی لوگوں کو دیکھنا چاہتا تھا اور ان کے درمیان وقت گزارنے کا شوق تھا جس کی تکمیل کے لیے میں نے خود انکل سے درخواست کی تھی ۔ جب یونیورسٹی کے پہلے سالانہ امتحان میں میں نے ٹاپ کیا تو عرفان کے گھر پر دعوت ہوئی اور وہیں انکل نے مجھے پہلی دفعہ اپنا پانچواں بیٹا ڈکلئیر کر دیا۔ وٹو اج نوں توں میرا پنج واں پتر ہیں۔ عرفان ، نبیل ، سمیر ، شمائل دی طرح اور یوں ایک دم لاہور اپنا اپنا سا لگنے لگا۔ لاہور کے راستے شناسا سے لگنے لگے۔ لوگ جانے پہچانے لگنے لگے۔ گلیاں دیکھی دیکھی سی لگنے لگیں اور انکل نے یہ قول زندگی بھر نبھایا۔ میری سرکاری ملازمت نہ کرنے پر وہ خوش نہ تھے ۔ ہر وقت مجھے کہتے رہتے کہ تمھارے جیسے بندوں کومحکموں میں آکر ملک کی خدمت کرنا چاہئے تھی۔مجھ سے عرفان کی تعلیمی پراگریس باقاعدگی سے پوچھتے۔یو ای ٹی ہاسٹل میں رہتے ہوئے اگر کبھی میں بیمار ہوجاتا تو اپنے پاس گھر بلانے کی ضد کرتے کہ گھر کا کھانا کھانے سے تو ٹھیک ہو جائے گا۔ یو ای ٹی کے بعد ہم دوست ملازمت اور پروفیشنل مصروفیات کی وجہ سے لاہور سے کافی سال دور رہے۔ چند سال پہلے عرفان کی کراچی سے لاہور آمد پر اس کے گھر میں اور طارق بخاری اکٹھے ہوئے تو انکل سے گھر کے لان میں ہی ملاقات ہو گئی۔ ان کے ساتھ کافی دیر گپ شپ چلتی رہی اور پھر ہم عرفان کے ساتھ اس کے کمرے میں بیٹھ گئے۔ واپسی پر پتا چلا کہ انکل ہماری گپ شپ کے دوران ہی فورٹریس سے جاکر میرے لیے ٹوپیس سوٹ کا بہترین کپڑا خرید لائے تھے اور اس ہدایت کے ساتھ دیا کہ فورا ہی سلوا لو میٹنگز کے لیے بہت اچھا ڈریس رہے گا۔ بعد میں کبھی کبھار فون پر عرفان سے ان کی خیریت پتا چلتی رہی کہ طبیعت صحیح نہیں رہتی۔ کل صبح جب اباجان کی آٹھویں برسی پر میں ان کی یادوں میں کھویا ہوا تھا تو انکل کی وفات کی غم ناک خبر ملی۔ آج میرا لاہور میں رہنے والا وہ باپ بھی دارِ فانی سے رخصت ہو چکا ہے جس نے اس دور میں مجھے پدرانہ شفقت دی جب لاہور میں میرا کوئی جاننے والا نہیں تھا۔ 26 اکتوبر کو جیسے میں نے ایک دفعہ پھر اپنے باپ کو دوبارہ کھو دیا ہے۔ اللہ تعالی ملک محمد جاوید اقبال کے درجات بلند فرمائے اور آخری منزلیں آسان کرے۔ آمین تو دیکھا قارئین کرام ملک جاوید مرحوم جیسا انسان ہو تو اسکے اپنے فرزند تو اللہ پاک نے دیئے ہی لیکن ایک ایسا لڑکا جو اسکا منہ بولا فرزند ہے اس نے ثابت کیا وہ فرزندی کے لائق ہے ،وہ ایک وفا کا پیکر ہے وہ اپنے محسن کو نہیں بھولا اسکا وہ احسان یاد رکھا جو کبھی کیا گیا تھا ،لوگ درست کہتے ہیں اصل سے خطا نہیں اور کم نسل سے وفا نہیں دنیا جہاں ایسے نایاب لوگوں سے خالی نہیں وہیں بھری پڑی ہے مطلبی مفاد پرست اور موقع شناس لوگوں سے جو بس اپنا الو سیدھا کرنے نظر آجاتے ہیں اور مطلب نکلتے ہی ایسے غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ ! مجری دعا ہے ہر انسان کو اچھا انسان ملے جو جو رشتے ہیں وہ ہر قیمت پر نبھائے جائیں، خوش رہیں ملتے ہیں، اگلے ہفتے!
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here