امن یا محاذ آرائی!!!

0
45
جاوید رانا

قارئین کرام! امید کہ آپ اپنے پیاروں کے ہمراہ عافیت سے ہونگے، ہمارے گزشتہ کالم لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، پر جس پسندیدگی اور پذیرائی کا آپ نے اظہار کیا ہے اس پر ہم شکر گزار ہیں اور اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ حق اور سچائی کے اظہار میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے خواہ اس راہ میں کتنی کٹھنائیاں آئیں، بقول شاعر ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ افغان طالبان کے حوالے سے اب تک کی صورتحال کے حوالے سے اب تک کی سچویشن اور استنبول (ترکیہ) میں ہونیوالے مذاکرات سے تو آپ بخوبی آگاہ ہوچکے ہونگے، ہم نے اپنے پچھلے کالم میں افغان رجیم کے بارے میں عرض کیا تھا کہ یہ اپنی فطرت میں محض ایک جنگجو گروہ ہے اور ریاستی مملکتی و ڈپلومیٹک حوالوں سے اس کا دُور دُور تک نہ کوئی واسطہ ہے اور نہ کوئی ادراک، حق تو یہ ہے کہ ان میں نہ کسی فیصلہ سازی کی صلاحیت ہے نہ سفارتی اپج ہے۔ ان کی بدترین فطرت سودے بازی اور بک جانا ہے اور مذکورہ کانفرنس بلکہ مذاکراتی دور میں ان کی بد طینت فطرت کُھل کر سامنے آئی جب عین مذاکرات کے وقت دہشتگرد تشکیل ہماری سرحد پر حملہ آور ہونے کی کوشش میں پاک محافظوں کے ہاتھوں بشمول چار خود کش بمبار جہنم رسید ہوئے، ہمارے پانچ بیٹوں نے جام شہادت ضرور نوش کیا مگر دہشگردی کی سازش کو ملیا میٹ کر دیا، یہی نہیں دوسری طرف افغانی وفد نے پاکستانی فریق کی پیش کردہ شرائط پر کابل اور قندھار سے ہدایات کے باوجود پاکستانی نقطۂ نظر سے اتفاق تو کیا لیکن دستاویز ، معاہدہ پر دستخط کرنے سے انکار کیا۔ افغان رجیم کا یہ کردار ہمارے اس استدلال کو تقویت دیتا ہے کہ یہ کوئی ریاست یا حکومت ہر گز نہیں بلکہ جگنجوئوں کا ایسا ٹولہ ہے جو اپنے مفادات کیلئے ہتھیاروں کے استعمال کے سواء کچھ نہیں جانتا، فیصلہ سازی کی ان میں نہ کوئی اہلیت ہے اور نہ عمل ان کے پیش نظر ہو سکتا ہے۔ یہ آپس میں بھی محاذ آراء رہتے ہیں اور محسنوں سے بھی لڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، پاکستان کیخلاف دہشتگردی کی جنگ میں ان کا کردار اور ازلی دشمن بھارت سے ان کا اشتراک محض پیسے کی خاطر اب ساری دنیا پر واضح ہو چکا ہے۔ حالیہ مذاکرات میں افغان رجیم اور افغان وفد کے حوالے سے ترک انٹیلی جنس کے سربراہ و ثالث نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ موجودہ حالات اس امر کا اشارہ دے رہے ہیں کہ افغان رجیم اپنی سرزمین سے دہشتگرد تنظیموں سے چھٹکارا پا سکنے کی مجبوری و مصلحت کے تناظر اور حالیہ مذاکرات کے بے نتیجہ ہونے کے سبب پاکستان دشمن بھارت کیساتھ مل کرمحاذ آرائی کے ناپاک اقدام پر اُترے گا، بھارتی حکومت اور افغان طالبان کو صدر ٹرمپ نے اس اقدام سے گریز کیلئے وارننگ بھی دی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ لاتوں کے یہ بھوت باتوں سے ماننے والے نہیں۔ صدر ٹرمپ کا ذکر آیا ہے تو امریکہ میں (جو ہمارا دوسرا گھر ہے) موجودہ حالات کا ذکر کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی دوسری ٹرم کو دنیا میں امن کا گہوارہ بنائیں گے، ان کے بقول انہوں نے دنیا میں 9جنگیں رکوائی ہیں لیکن خود امریکہ میں امیگرنٹ کے حوالے سے جو وحشت و بربریت اور خوف کا ہنگام برپا کر دیا ہے امریکی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ امریکہ کو خصوصاً تارکین کے حوالے سے ساز گار مواقع کی سرزمین قرار دیا جاتا ہے اور دنیا بھر سے آئے تارکین وطن اس ملک کی ترقی و خوشحالی نیز دنیا کی سپر پاور قرار دینے میں مکمل تحفظ و آزادی کے ماحول اپنا کردار ادا کرتے ہیں، سیاست، معاشرت، معیشت، ثقافت حتیٰ کہ کھیلوں سمیت کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں ایمیگرنٹس اپنا مثبت کردار ادا نہ کر رہے ہوں۔ کروڑوں تارکین وطن کیخلاف صدر ٹرمپ کے نافذ کردہ امیگریشن قوانین اور آئس کے ڈیمو کریٹ ریاستوں ہی نہیں سرخ ریاستوں میں بھی کریک ڈائون سے خوف خطرات کیساتھ معاشی بحران کی شدید صورتحال پیدا ہو چکی ہے، ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ سے زائد تارکین وطن کے معاشی بحران سے متاثر ہونے کے خدشات ہیں، امریکہ کی مختلف ریاستوں شہروں کے سربراہ و عہدیداران و منتخب رہنما سراپأ احتجاج اور لاکھوں افراد اس قانون اور آئس کے غیر انسانی و غیر منصفانہ رویوں پر ریلیوں کی صورت میں متنازعہ قانون و فیصلوں کی مخالفت کر رہے ہیں دیگر ریاستوں کی طرح ریاست الی نائے میں بھی گورنر پریٹزکر، میئر شکاگو بریڈن جانسن اور راجہ کرشنا مورتی سمیت تمام وفاقی و ریاستی نمائندگان کی مخالفت و احتجاج کے باوجود آئیس کے غیر انسانی و غیر اخلاقی اقدامات سے ریاست میں خوف و سراسیمگی کی بدترین صورتحال ہے۔ غیر قانونی و مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کی آڑ میں امریکی سٹیزنز، گرین کارڈ ہولڈرز، ملازمت و تعلیمی پرمٹ کے حامل افراد کیساتھ بے گناہ افراد پر ہاتھ ڈالنے، تلاشیوں اور بعض صورتوں میں گرفتاریوں کے سلسلے نے تارکین کی زندگی محال کر دی ہے۔ ان حالات سے 9/11 کے بعد کی صورتحال کو دوبارہ جاگزیں کر دیا گیا ہے۔ بازار سنسان ہو گئے ہیں، دیون سمیت ریاست کے تمام کاروباری مراکز کی معاشی سرگرمیاں شدید متاثر ہیں۔ لوگ اپنی ملازمتوں پر جانے، کاروبار اور خرید و فروخت حتیٰ کہ بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کے جاری رکھنے کے عمل سے بھی پریشان نظر آتے ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا سفر جیسے تھم گیا ہے۔ ہمارے ایک سروے کے مطابق خوف اور مایوسی کی تارکین میں یہ لہر متذکرہ قانون کی غلط صراحت اور تشریح کیساتھ آئس کے غلط طرز تفتیش اور وفاقی و ریاستی چپقلش کا نتیجہ بھی ہے۔ ICE کے مقامی عہدیداران کے مطابق ان کے ایکشن محض ان تارکین کیخلاف ہیں جو غیر قانونی و مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث یا سزا یافتہ ہیں لیکن ایسے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں کہ تصدیقی ثبوتوں کے باوجود بھی گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ جو دنیا بھر میں سیز فائر اور امن کے قیام کے نقیب بن کر عمل پیرا ہیں تو اس امیگریشن قانون کے ذریعے اپنے ہی وطن کو انتشار و تفریق اور تقسیم سے کیوں دوچار کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، یا پھر ان کے پیش نظر اس اقدام کے ذریعے تیسری ٹرم میں صدارت کا حصول ہے جس طرح ملکوں کے درمیان سیز فائر کا اقدام ان کے پیش نظر نوبل امن ایوارڈ کا حصول تھا۔ ہماری عرض صرف یہ ہے کہ غرض کے پردے میں کیا جانے والا کوئی بھی اقدام خواہ دو ملکوں کے درمیان ہو یا اندرون ملک انتشار و اختلاف اور بگاڑ کا سبب ہی ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here