”ٹاکسک رشتے”

0
2
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

ٹاکسک رشتے محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے نبیلہ ہارون کوثر صاحبہ نے سوشل میڈیا پر ایک بحث چھیڑی ہے جس میں ٹاکسک یا زہریلے رشتے کو موضوع بنایا ہے یہ کیا رشتہ ہے کیوں ہے یہ کون لوگ ہوتے ہیں ہم ان سے کیا طرح کے نقصان کی توقع رکھتے ہیں ایسے بہت سے سوالات ہیں جو اس بحث کیزریعے جنم لیتے ہیں ۔ ہمارے ارد گرد ٹاکسک رشتے، حل کیا ہیں ؟؟ ٹاکسک رشتہ ہمیشہ اجنبیوں سے نہیں ہوتا، اکثر یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن سے ہمارا روز کا واسطہ ہوتا ہے، جیسے والدین، شریکِ حیات یا خاندان کا کوئی قریبی فرد۔ مسئلہ تب بنتا ہے جب دوری ممکن نہ ہو اور ہر بات دل پر لگنے لگے۔ سائیکالوجی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ سب سے پہلا قدم یہ مان لینا ہے کہ مسئلہ موجود ہے۔ خود کو یہ سمجھانا کہ یہ تو میرے اپنے ہیں، ایسا ہی ہوتا ہے آپ کے ذہنی دبا کو کم نہیں کرتا بلکہ بڑھاتا ہے۔ آپ کا درد جائز ہے، چاہے سامنے والا والدین ہی کیوں نہ ہوں۔ ٹاکسک رویے کی ایک بڑی پہچان یہ ہے کہ آپ ہر ملاقات کے بعد تھکن، الجھن یا گناہ کے احساس میں مبتلا ہو جائیں۔ کبھی باتوں سے نیچا دکھانا، کبھی جذباتی بلیک میلنگ، کبھی خاموشی کی سزا دینا یہ سب نارمل نہیں ہے۔ پاکستان کے معاشرے میں ہمیں برداشت کا بہت سبق دیا جاتا ہے، لیکن برداشت اور خود کو مٹانے میں فرق ہے۔ سائیکالوجی کے مطابق آپ کسی کا رویہ کنٹرول نہیں کر سکتے، لیکن اپنے ردِعمل پر اختیار رکھ سکتے ہیں۔ ایک عملی اصول یہ ہے کہ آپ واضح مگر نرم حدیں مقرر کریں۔ مثال کے طور پر ہر بات کا جواب دینا، ہر بحث میں الجھنا یا ہر حکم ماننا ضروری نہیں۔ اگر کوئی بات آپ کو تکلیف دیتی ہے تو احترام سے اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ بات مجھے اچھا محسوس نہیں کراتی، ہم بعد میں بات کریں گے۔ شروع میں سامنے والا ناراض ہو سکتا ہے، لیکن یاد رکھیں کہ حدیں بنانے والا اکثر پہلے برا لگتا ہے۔ سائیکالوجی یہ بھی کہتی ہے کہ ٹاکسک لوگوں سے جذباتی توقعات کم کر دی جائیں۔ اگر آپ بار بار یہ امید لگائیں گے کہ وہ بدل جائیں گے، سمجھ جائیں گے یا آپ کو وہ محبت دیں گے جو آپ چاہتے ہیں، تو مایوسی بڑھے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی کمزوریوں کا بوجھ دوسروں پر ڈال کر جیتے ہیں۔ آپ کا کام انہیں ٹھیک کرنا نہیں، خود کو محفوظ رکھنا ہے۔ ایک اور قابلِ عمل طریقہ یہ ہے کہ بات چیت کم لیکن بامقصد رکھیں۔ غیر ضروری بحث، وضاحتیں اور صفائیاں آپ کی توانائی کھا جاتی ہیں۔ ہر الزام کا جواب دینا لازم نہیں۔ کبھی کبھی خاموشی خود حفاظت بن جاتی ہے، خاص طور پر ایسے گھروں میں جہاں بات کرنے کا مطلب لڑائی ہو۔ پاکستانی معاشرے میں خاندان سے باہر سپورٹ لینا مشکل سمجھا جاتا ہے، لیکن سائیکالوجی کے مطابق ایک سمجھدار دوست، کسی سینئر رشتہ دار یا پروفیشنل کونسلر سے بات کرنا ذہنی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ کمزوری نہیں، خود داری کی علامت ہے۔ اگر آپ مسلسل ذہنی دبا، بے خوابی یا بے بسی محسوس کر رہے ہیں تو مدد لینا آپ کا حق ہے۔ آخر میں یہ بات یاد رکھیں کہ احترام کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خود کو نقصان میں ڈالیں۔ آپ اچھے بیٹے، بیٹی، شوہر یا بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسان بھی ہیں۔ آپ کے جذبات، حدیں اور سکون اہم ہیں۔ ٹاکسک رشتے کو بدلنا شاید آپ کے اختیار میں نہ ہو، لیکن اس کے اثرات کو کم کرنا ضرور آپ کے اختیار میں ہے۔ ٹاکسک رشتے صرف عورتوں کے ہوتے ہیں یا مردوں کے بھی ہوتے ہیں ؟ محترمہ روبینہ یاسمین کا کہنا ہے اگر دونوں کے ہوتے ہیں تو ہم مردوں کی طرف سے کم سنتے ہیں کہ انہیں ٹاکسک رشتے کا سامنا ہے اور انہیں اس سے نکلنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ مردوں کے اگر ٹاکسک رشتے ہوتے ہیں تو وہ آ سانی سے اس لئے نکل سکتے ہیں کہ وہ فنانشیلی انڈیپینڈنٹ ہوتے ہیں۔ انہیں صرف فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ساتھ رہنا ہے یا نہیں رہنا ہے۔ عورتیں چونکہ سب فنانشیلی انڈیپینڈنٹ نہیں ہوتیں اس لئے ان کو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ ٹاکسک رشتے سے نکل کر انکا اور انکے بچوں کا خرچہ کون اٹھائے گا۔ سپورٹ کون کرے گا۔ اگر وہ ٹاکسک رشتے سے نکل کر بھائیوں سے فنانشیل سپورٹ لیتی ہیں تو بھابھیاں انکے بھائیوں کے لئے ٹاکسک بنیں گی کہ یہ اضافی خرچہ کیوں آ گیا۔ اب بھابھیوں کے گھر کا سکون خراب ہو گا۔ اگر کنویں سے نکل کر کھائی میں گرنا ہے تو ٹاکسک رشتے سے نکلنے سے پہلے سوچنا تو پڑتا ہے کہ کنواں بہتر ہے یا کھائی گوارا ہے۔ ہر شخص اچھے پر سکون ماحول میں رہنا چاہتا ہے۔ جب اچھا ماحول نہیں ملتا تو کوشش کرتا ہے کہ زہریلے ماحول سے نکلے۔ لیکن آ پشنز کیا ہیں ؟ سپورٹ سسٹم کیا ہو گا؟ ایک زہریلے ماحول سے نکل کر دوسرے زہریلے ماحول میں تو نہیں چلے جائیں گے؟ جمع تفریق خود ہی کرنی ہوتی ہے۔ کسی کو ہمارے پورے حالات پتہ نہیں ہوتے ۔ ہمارے حالات اور آ پشن ہمیں ہی پتہ ہوتے ہیں ۔ خود فیصلہ کریں۔ میں عورتوں کے جاب کرنے اور فنانشیل انڈیپینڈنٹ ہونے کی حمایت کرتی ہوں۔ جب ہم جاب کرتے ہیں تو بہت سی ناپسندیدہ باتوں پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ اپنی مرضی کے خلاف اپنے ادارے کی گائیڈ لائن پر عمل کرتے ہیں۔ کام میں کوتاہی کی جواب طلبی کا مصلحت سے جواب دیتے ہیں۔ پتہ ہوتا ہے کہ یہاں مصلحت سے کام نہیں لیا تو ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ جب ملازمت نہیں ہو گی تو پیسے نہیں ہوں گے ۔ جب پیسے نہیں ہوں گے تو بل اور رینٹ نہیں دیا جائے گا۔ آ گے جو مسائل منہ کھول کے کھڑے ہوتے ہیں ان کی وجہ سے ہم اپنی زبان بھی کنٹرول کرتے ہیں اور ورکنگ ریلیشن شپ بھی ٹھیک رکھتے ہیں۔ جاب پر تیوریاں بھی نہیں چڑھاتے کیونکہ اس سے ہماری کسٹمر سروس پر برا اثر پڑتا ہے۔ اگر جاب کا ماحول اچھا نہیں ہے تو ہم جاب چھوڑ دیتے ہیں دوسری جگہ جاب کر لیتے ہیں ۔ لیکن یہاں بھی حالات سو فیصد ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتے۔ اگر ہماری قابلیت ہے تو بہتر سے بہتر جاب سوئچ کرتے رہتے ہیں۔ جاب کرنے اپنی روزی کمانے سے برداشت اور رویوں کی ہینڈلنگ کا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ کسی کی جیب سے پیسہ نکلوانا بہت مشکل کام ہے۔ یہ پیسہ نکلوانے کے لئے ہمیں دوسروں سے بہتر کام کرنا ہوتا ہے ورنہ ہماری جگہ کسی اور کو ہماری جاب مل جائے گی۔ خونی رشتوں اور نکاح نامے پر سائن کرنے کے بعد بننے والے رشتوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ خونی رشتوں میں بغیر محنت کئے بہت سے احساس اور محبت مل جاتے ہیں۔ سائن کرنے سے احساس اور محبت آ ٹومیٹک نہیں ملتے۔ انکو کمانا پڑتا ہے۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ معاشی خود مختاری پر کبھی سمجھوتہ نہ کریں یہ ایک سمجھوتہ بہت سے ایسے سمجھوتے کرنے پر مجبور کر دے گا جو آ پ نہیں کرنا چاہیں گے لیکن آ پکے پاس کرنے کے علاوہ آ پشن بھی محدود ہوں گے۔ میری دعا ہے اور میر کرتا ہوں ہر انسان اپنی زندگی میں خوش رہے اور کسی بھی زہریلے رشتے کی وجہ سے اسکی زندگی اجیرن نہ ہو، آمین ،خیر اندیش!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here