ہم کہاں جا رہے ہیں بحیثیت کمیونٹی!!!

0
27
شمیم سیّد
شمیم سیّد

کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ کچھ لکھوں کہ ہماری کمیونٹی منتشر کیوں ہے، ہم ایک ہو کر بھی کیوں نہیں سوچتے، ہم کیوں بٹے ہوئے ہیں، ہمارے ہاں جو ایسوسی ایشنز ہیں جن میں سب سے بڑی دو جماعتیں ہیں ایک آئی ایس جی ایچ اور دوسری پی اے جی ایچ جو ہماری کمیونٹی کی نمائندہ جماعتیں ہیں، باقی سب دوسری تنظیمیں ہیں جو اپنے اپنے حلقوں میں بٹی ہوئی ہیں اور فلاحی کام کر رہی ہیں، جیسے ڈاکٹروں کی تنظیم اپنا، انجینئرز کی تنظیم نیڈا جہاں اپنے اپنے طریقوں سے الیکشن ہوتے ہیں، جہاں تک آئی ایس جی ایچ کا تعلق ہے وہاں دو گروپ ہیں ایک عربوں کا اور دوسرا دیسیوں کا، عرب تو ایک ہو جاتے ہیں لیکن ہم دیسیوں میں ایک دوسرے کیخلاف کھڑے ہونے میں کچھ اور ہی لذت محسوس کرتے ہیں، بہر حال اس دفعہ پھر سے دیسی پینل جیت گیا ہے یہی حال پی اے جی ایچ کا ہے اس سال کچھ سیٹوں پر الیکشن ہوئے لیکن تمام امیدوار بلا مقابلہ جیت گئے کوئی الیکشن نہیں ہوا کسی نے فارم جمع نہیں کروائے اب میں اصل مدعے کی طرف آتا ہوں اور وہ ہیں ہمارے امریکن پالیٹکس فورٹ بینڈ کائونٹی شوگرلینڈ کے الیکشن جہاں ہمارے لوگ کھڑے ہوتے ہیں یہاں مسئلہ کیا ہے دو پارٹیاں ہیں ایک ریپبلکن اور دوسری ڈیمو کریٹک جہاں پر اتفاق نہیں ہو سکتا کیونکہ دونوں نظرئیے مختلف ہوتے ہیں زیادہ تر مسئلہ ڈیمو کریٹس میں ہوتا ہے جہاں پر ہمارے نمائندے پرائمری کیلئے لڑتے ہیں اور آپس میں یہی ایک دوسرے کیخلاف کھڑے ہو جاتے ہیں وہی مثال ہے نہ جیتیں گے اور نہ ہی جیتنے دینگے ہر دفعہ کمیونٹی کے لوگ پلان بناتے ہیں کہ ہم ایک کمیٹی بنائینگے جو امیدواروں کا چنائو کریگی تاکہ ایک دوسرے کیخلاف کوئی کھڑا نہ ہو، پچھلے الیکشن میں جو کچھ ہوا، ہمارے دو نمائندے الیکشن جیت گئے، مقابلہ سخت تھا اب تو مجھے نظر نہیں آرہا کہ کوئی نمائندہ الیکشن جیت جائیگا کیونکہ ہم تو تقسیم ہو گئے ہیں، پہلے پرائمری جیتیں اس کے بعد آگے فیصلہ ہوگا کہ کیا کرنا ہے ہمارے جتنے بھی ووٹرز ہیں وہ ووٹ ڈالنے نہیں آتے ہیں، مشکل سے دو تین ہزار لوگ ووٹ ڈالتے ہیں لیکن دوسری کمیونٹیوں کے لوگ ووٹ ضرور ڈالتے ہیں، ہمیں آپس کے جھگڑوں کو ختم کرنا ہوگا جو کہ مجھے نظر نہیں آتا ہے ،ووٹر بیچارہ اسی کشمکش میں رہتا ہے کہ کس کو ووٹ دوں، دونوں طرف کے امیدوار دوست ہیں، مرتا کیانہ کرتا وعدہ تو ایک سے کیا اور ووٹ دوسرے کو ڈال دیا سب سے بڑا کام ہے، دوسری کمیونٹی میں کام کرنا ایک ایک گھر کے دروازے پر جا کر ووٹ مانگنا اتنا آسان نہیں ہے ہمیں نیویارک کے الیکشن سے سبق سیکھنا چاہئے کہ کس طرح اس مرد مجاہد نے اپنی مہم چلائی اور ایک ایک ووٹرز کا دروازہ کھٹکھٹایا جس کا رزلٹ سب کے سامنے ہے اس نے ان بڑے لوگوںکو ہرایا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن اس کا حوصلہ پختہ تھا اور اسے اپنی محنت پر یقین تھا کہ وہ جیت جائیگا ہمارے ہاں معاملہ دوسرا ہے ہم صرف اپنے ہی بھائی اور بہن کو ہرانے پر تُلے ہوئے ہیں آگے کا نہیں سوچ رہے ہیں جہاں دوسرے نمائندے ہیں جن کے ووٹرز کی تعداد بھی زیادہ ہے اگر آپ لوگوں کے ذہن میں صرف یہی ہے کہ پرائمری میں اپنے ہی بھائی یا بہن کو ہرا کر ہم کامیاب ہو جائینگے تو یہ بہت بڑی بُھول ہے الیکشن تو پرائمری کے بعد ہوگا، اپنی زاتی انا اور جیت کی خواہش کو چھوڑ کر کمیونٹی کے مفاد میں سوچیں کہ ہماری کمیونٹی کہاں کھڑی ہے اگر ہم اب بھی ایک نہ ہوئے تو یاد رکھیں ہمارا حشربہت بُرا ہوگا ہم لاکھوں ڈالر اس الیکشن میں گنوا دینگے جس کا کوئی حاصل وصول نہیں ہوگا ہر کوئی علی شیخانی نہیں ہے جو جیت جائے علی شیخانی نے محنت اور کام سے یہ مقام حاصل کیا ہے اس نے کسی سے چندہ نہیں لیا ہمار اکوئی بھی امیدوار ایسا نہیں ہے کہ وہ بغیر فنڈریزنگ کے یہ مقابلہ جیت سکے بہر حال میرا یہ اپنا ذاتی خیال ہے شاید کچھ لوگ اس کو نہ مانیں لیکن میرا کام تھا کمیونٹی کو ایک پیغام دینا اب بھی وقت ہے اس پر غور کریں ورنہ ایک آخری مقولہ ہے، تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں!
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here