واشنگٹن:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ترکی شام میں کردوں کیخلاف فوجی آپریشن کے دوران حد سے تجاوز نہ کرے اور کارروائی میں شدت پیدا نہ کرے، اگر ایسا کیا گیا تو امریکا ترکی کی معیشت کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ایک ٹویٹ میں امیرکی صدر نے ترک حکومت کو واضح پیغام دیا کہ اگر شام میں کردوں کے زیر تسلط علاقوں میں کارروائی کے دوران حد کو تجاوز کیا تو امریکا ترکی کی معیشت کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا۔
صدر ٹرمپ نے مزید لکھا کہ میں اس بات کو دہراتا ہوں کہ اگر ترکی کوئی ایسا قدم اُٹھاتا ہے جو میرے نزدیک درست نہیں تو میں ترکی کی معیشت کو مکمل طور پر تباہ کر دوں گا بالکل اسی طرح سے جیسے پہلے کی تھی۔ جس کے بعد ترکی کی کرنسی لیرا ڈالر کے مقابلے میں شدید گراوٹ کا شکار ہو گئی تھی۔
یہ خبر بھی پڑھیں: امریکا کا شام میں ترکی کے فوجی آپریشن میں رکاوٹ نہ بننے کا فیصلہ
صدر ٹرمپ نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ کہ داعش کی نام نہاد خلافت کے خاتمے کے لیے طویل جنگ لڑی ہے جسے سبوتاژ نہ ہونے دیا جائے، ترکی کو یورپی ممالک کے ساتھ مل کر گرفتار داعش کمانڈرز اور ان کے اہل خانہ پر نظر رکھنی ہوگی۔ امریکا نے اپنا کام کردیا ہے اب دوسرے ممالک کی باری ہے کہ اپنے علاقوں کی خود حفاظت کریں۔
ترک صدر طیب اردگان نے ترک علیحدگی پسند جماعت کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے شام میں داخل ہونے کا اعلان کیا تھا اور ترک صدر نے صدر ٹرمپ سے ٹیلی فونک گفتگو میں فوجی کارروائی میں رکاوٹ نہ بننے کا مطالبہ کیا تھا جس پر امریکا نے ترکی اور شام کی سرحد پر موجود اپنےفوجی دستے واپس بلا لیے تھے۔
ادھر اپوزیشن جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی کے ساتھ ساتھ حکمراں جماعت ریپبلکن پارٹی نے بھی اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج کے انخلا کے نتیجے میں ہماری اتحادی (کرد فوج) تنہا رہ جائیں گے اور براہراست ترک فوج کے نشانے پر ہوں گے۔ کرد فوج نے شام میں داعش کیخلاف جنگ میں بطور امریکی اتحادی شانہ بشانہ جنگ لڑی تھی۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ کے کردوں کیخلاف ترکی کی فوجی کارروائی میں رکاوٹ نہ بننے کے فیصلے کو کرد فوج نے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے امریکی فوج کے انخلا کو پیٹھ پر چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا۔ کرد فوجیں شام میں امریکا کی مضبوط اتحادی رہی ہیں۔
ترکی کی درخواست پر فوجیوں کے انخلا پر امریکا میں حکمراں اور اپوزیشن جماعت کی تنقید اور کردوں کی جانب سے پرانے دیرینہ تعلقات یاد دلانے کے بعد صدر ٹرمپ نے ترکی کیخلاف بیان تو دے دیا ہے تاہم شام اور ترکی کی سرحد سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا سلسلہ جاری ہے جس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا ہے۔