اسلام آباد:
جیلوں میں قید وی آئی پی قیدیوں سے سہولیات واپس لینے کے لیے حکومت نے نیب آرڈیننس 1999ء میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔
سی کلاس جیل کے حوالے سے نیب ترمیمی بل 1999ء کے سب سیکشن 10 میں نئی شق شامل کی گئی ہے۔ نیب ترمیمی آرڈیننس پیرکو منظوری کے لیے وفاقی کابینہ میں پیش کیا جانا تھا تاہم وزیرقانون کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے معاملہ اگلے کابینہ اجلاس تک موخر کردیا گیا۔
حکومت نے بے نامی جائیدادوں کی نشاندہی کے لیے بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ 2017ء میں بھی ترمیم کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ میں “وسل بلور” کی تعریف شامل کی گئی ہے۔
“وسل بلور” نیب، ایف آئی اے، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ، سیکورٹیز ایکٹ اور کسی بھی صوبائی یا وفاقی اینٹی کرپشن قانون کے تحت شکایت کر سکے گا۔وفاقی کابینہ نے ملک کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو بھی ریگولیٹ کرنے کیلئے رئیل اسٹیٹ ریگولیشن اینڈ ڈویلپمنٹ آرڈیننس 2019 ء کی منظوری دے دی ہے۔
رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کو کسی بھی قسم کے پلاٹ ، مکان یا بلڈنگ کی خرید و فروخت کیلئے اتھارٹی میں رجسٹر یشن کرانا لا زمی ہوگا۔ کوئی بھی رئیل اسٹیٹ کا منصوبہ شروع کرنے سے پہلے اتھارٹی کی منظوری لازمی قرار دی جائیگی، اس کے بغیر کوئی پروموٹر پلاٹ کی خرید و فروخت نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی قسم کا اشتہار چلا سکتا ہے، ڈویلپر کو ماضی کے منصوبوں کی تفصیلات بھی جمع کرانا اور آئندہ کا پورا پلان بھی پیش کرنا ہو گا ،کسی بھی خلا ف ورزی کی صورت میں پروموٹرکا لائسنس منسوخہوسکے گا۔
رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے تنازعات کے تصفیہ کیلئے ایک اپیلٹ ٹریبونل قائم کیا جائیگا ۔دریں اثناء خواتین کو وراثت میں حق دلوانے کے لیے بھی صدارتی آرڈیننس لایا جائے گا۔آرڈیننس کا اطلاق وفاقی دارلحکومت تک محدود ہوگا۔خواتین اپنا وراثتی حق لینے کے لیے وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسگی کو درخواست دے سکیں گی۔
وفاقی محتسب وراثتی جائیداد سے متعلق 60 روز کے اندر فیصلہ کرے گا۔ وفاقی حکومت نے لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو غریب اور بے سہارا افراد کو قانونی معاونت فراہم کرے گی۔اس کے تحت ہر ضلع اور تحصیل میں وکلاء کا پینل بنایا جائے گا۔ اتھارٹی کا الگ فنڈ قائم کیا جائے گا۔
اتھارٹی کے انتظامی امور وفاقی وزیر انسانی حقوق کی سربراہی میں بورڈ آف گورنرز دیکھے گا۔لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی کو ضرورت کے مطابق افسران اور ملازمین کی تعیناتی کا اختیار حاصل ہوگا۔