لاہور:
پاکستان کے نامور اور کئی سپر ہٹ گانے گانے والے لوک گلوکار شوکت علی نے حکومت سے شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے پھولوں کی نہیں بلکہ مالی مدد کی ضرورت ہے۔
گزشتہ ہفتے لوک گلوکار شوکت علی کو جگر کی بیماری کے باعث لاہور کے سروسز اسپتال میں داخل کیا گیا۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق شوکت علی کی طبعیت ابھی بھی ناساز ہے جب کہ ڈاکٹرز اور طبی عملہ ان کے علاج میں کوئی کسر نہیں اٹھارہا۔
سروسز اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر شہزاد کا کہنا ہے کہ گلوکار شوکت علی کو جب اسپتال لایا گیا تھا اس وقت ان کی حالت بہت خراب تھی تاہم اب وہ قدرے بہتر ہیں لیکن ابھی بھی ان کی حالت خطرے سے باہر نہیں ہے۔
حکومتی رویے نے انہیں بہت مایوس کیا۔ پنجاب کے وزیر ثقافت میاں محمد اسلم اور فیاض الحسن چوہان اسپتال میں شوکت علی کی عیادت کو پہنچے۔ حکومتی نمائندوں کی آمد کے حوالے سے شوکت علی نے کہا کہ یہ لوگ میرے لیے پھول لے کرآئے اور میری خیریت دریافت کی لیکن مجھے ان کے پھول نہیں چاہئیں بلکہ مجھے مالی مدد چاہیئے۔
گلوکار شوکت علی نے حکومتی رویے سے مایوس ہوکر کہا کہ یہ بہت افسوسناک ہے کہ حکومت فنکاروں کو بالکل نظر انداز کردیتی ہے۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں طویل علاج کا خرچ برداشت کرسکوں اور تمام حکومتی اہلکار صرف روایتی دورے کررہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ملک کے لیے میری خدمت ان دوروں سے کہیں زیادہ ہے۔
گلوکار شوکت علی کے بیٹے عمران شوکت کا کہنا ہے کہ ان کے والد کے لیے کہیں سے کوئی امداد نہیں آرہی ہے اسلیے انہوں نے اور ان کی فیملی نے حکومت سے مالی مدد کی امید لگائی ہے۔ میرے والد نے اپنی پوری زندگی ملک کی خدمت کرنے میں گزاردی اور بدلے میں انہیں یہ ملا حکومتی بے توجہی۔ آپ کس طرح 1965 اور 1971 کی جنگ کے دوران اس شخص کے متاثر کن کردار کو نظر انداز کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ لوک گلوکار شوکت علی پاکستان میوزک انڈسٹری کا بڑا نام ہیں۔ انہوں نے 5 دہائیوں تک ملک کے لیے خدمات انجام دیں جس پر انہیں حکومت کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے 1965 اور 1971 کی جنگ کے دوران لہو کو گرمانے والے کئی گیت گائے جن میں ’’ساتھیوں مجاہدوں جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘، ’’میرا پتر پاکستان دا‘‘ اور ’’اپنا قائد ایک ہے‘‘ شامل ہیں۔