خواتین یہ نہ بھولیں!!!

0
188
رعنا کوثر
رعنا کوثر

رعنا کوثر

پاکستان میں عورت مارچ کے نام پر ایک ہنگامہ ہے، عورتوں نے اپنے حقوق کے نہ صرف نعرے لگائے ہیں بلکہ اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے ہر طرح کے پوسٹرز بھی بنائے ہیں جن پر سب سے زیادہ اعتراض ہو رہا ہے۔
عورتیں اپنے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے شرم و حیاءکو بالائے طاق رکھ کر ہر طرح کی جنگ لڑنے کو تیار ہیں شاید وہ اس اصول پر چل رہی ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے مگر میں عورتوں سے کہوں گی کہ وہ کچھ بھول گئی ہیں وہ عورتیں جو کہ پوسٹر ہاتھ میں لیے کھڑی ہیں سب کی سب خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لگ رہی ہیں اچھے انگلش سکولوں کی پڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ان کے چہرے سے طمانیت ٹپک رہی ہے اور وہ وقت کی فراوانی بھی لگ رہی ہے۔ یہ وہ عورتیں ہیں جن کو اچھا کھانا ، اچھا پہننا اور اچھا پڑھنا نصیب ہو رہاہے اور یقیناً یہ لڑکیاں اپنے باپ کے پیسے سے ہی پڑھی ہونگی اور باپ کی محنت کی کمائی سے ہی اچھے کپڑے پہن رہی ہونگی باپ نے ہی اچھے اسکول میں داخلہ کرایا ہوگا پاکستان میں انگلش سکول میں پڑھنا اتنا آسان نہیں ہے میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک لڑکی باپ کی سپورٹ سے ہی اتنی باشعور ہوئی کہ اس کے اندر سڑک پر پوسٹر لے کر کھڑے ہونے کا اعتماد آیا۔ اس میں شادی شدہ عورتیں بھی ہونگی جو کہ شوہر کی کمائی سے گھر میں بیٹھ کر سکون کا سانس لے کر یہ سوچ رہی ہونگی کہ ہم دوسری عورتوں کے حوق کیلئے کیسے لڑیں اگر پاکستان کی ہر عورت امریکی عورت کی طرح باہر نکل کر جاب کر لے تو نہ تو ہر شادی میں لاکھوں کے جوڑے بنائے اور نہ ہی پارلر کے چکر لگائے۔ یہاں تو عورتیں شادی کرنے کے بارے میں بھی سوچتی ہیں نہ باپ شادی کیلئے پیسے دے سکتا ہے نہ بھائی، اگر ایک مرد آپ کو اتنا عیش دے رہا ہے تو ان کو حق ہونا چاہیے کہ وہ آپ کی شادی کے بارے میں فکر مند ہو، وہ باپ جو بیٹی کے ہاتھ پھیلے کرنے کے بارے میں پریشان ہوتا ہے اس کو یہ الزام لگانا کہ وہ لڑکی کی شادی جلد کر دیتا ہے اس باپ سے تو بہتر ہے کہ جو کہ لڑکی کو اس کے بوائے فرینڈ کےساتھ 16 سال کی عمر میں ہائی اسکول میںڈانس کرنے بھیج دیتا ہے ا گر ہماری ہر عورت امریکن عورت کی طرح کام کرے ،صبح نو سے پانچ کی جاب کر لے اور رات کو بچے ڈے کیئر سے لے کر آئے تو نعرے لگانا بھول جائیں گی، پوسٹر لکھنے کی فرصت نہ ہوگی۔ ہمارے ماں باپ تو باپ بھائی بھی بہنوں کی فکروں میں وقت سے پہلے بوڑھے ہو جاتے ہیں اب ایسا بھائی بہن کو دوپٹہ درست کرنے کو کہہ دے تو کیا یہ اس کا حق نہیں وہ بھائی جوبہن کی شادی سے پہلے اپنی شادی نہیں کرتا اس بھائی کی عظمت کو بہن جھک کر سلام کر لےتی تو کیا حرج ہے۔
ایک خوبصورت معاشرے کا بگاڑ اور ایک اچھے گھر کا بکھر جانا اُسی وقت ممکن ہے جب ہم ناشکرے ہو جاتے ہیں اور اچھے لوگوں کی قدر کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اپنی مذہبی اقدار ختم کر دیتے ہیں۔ اپنے کلچر کو بھول جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کسی کو آزمانا ہو تو اسے غصے کی حالت میں دیکھو، ایک اچھا خاندانی شخص کتنے بھی غصے میں آجائے آپے سے باہر نہیں ہوتا اور ایک اچھی عورت کتنی بھی غصے میں آجائے اپنی حد پار نہیں کرتی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here