جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
ارادہ تو یہ تھا کہ گزشتہ ہفتہ بھر تمام چینلز، اخبارت و سوشل میڈیا پر عورت مارچ کے حوالے سے ہونےوالے معاملات پر کُھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا جائے، لیکن گزشتہ دو روز میں ہونےوالے بین الاقوامی منظر نامے خصوصاً افغانستان اور سعودی عرب کی سیاسی صورتحال اور پاکستان پر اس کے اثرات کی اہمیت نیز ہماری سیاسی اشرافیہ کے کردار نے ہماری سوچ کو تبدیل کیا کہ اس حوالے سے کچھ تحریر کیا جائے۔ اتوار کو سعودی عرب کے شاہی خانوادے کے تین اراکین شاہ سلیمان کے سگے بھائی احمد بن عبدالعزیز السعود، سابق ولی عہد محمد بن نائف اور ان کے چھوٹے بھائی کی گرفتاری اور شاہ سلیمان اور ولی عہد محمد بن سلیمان کے ناطے بیماری اور بغاوت کی خبریں، پیر کے روز افغانستان میں بیک وقت اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا صدارت کا حلف اُٹھانے اور اشرف غنی کے عہدیداری کا حلف اٹھانے کے موقع پر بعض پختون نژاد پاکستانی سیاستدانوں کی شرکت محض معمول کے واقعات نہیں بلکہ پاکستان پر اس کے اثرات کو ڈسکس کرنا ضروری ہے۔
دوحہ قطر میں ہونےوالے امریکہ افغان طالبان کے درمیان ہونےوالے افغان امن معاہدے پر اپنے گزشتہ کالم میں ہم نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اور اشرف غنی کے افغان قیدیوں کی رہائی کو انٹرا افغان مذاکرات سے مشروط کرنے کے ا علان کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض خدشات کا اظہار کیا تھا۔ 9 مارچ کو اشرف غنی نے ایک جانب عہدہ صدارت کا حلف اٹھایا۔ دوسری جانب اشرف غنی کی حالیہ انتخاب میں کامیابی کو تسلیم نہ کرنے والے سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے متوازی صدارت کا حلف اٹھایا۔ واضح رہے کہ اشرف غنی افغانستان میں اکثریتی آبادی گروپ کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ عبداللہ عبداللہ شمالی اتحاد (ناردرن الائنس) کی سربراہی کر رہا ہے، احمد شاہ مسعود کے بعد عبداللہ عبداللہ اس الائنس کی قیادت کر رہا ہے۔ دونوں گروپ طالبان سے متصادم ہیں۔ اشرف غنی اگرچہ امریکی انتظامیہ کا پروردہ اور مہرہ رہا ہے لیکن امریکی سیکرٹری دفاع کی معاہدے سے قبل افغانستان آمد اور معاہدے کےخلاف جانے سے روکنے کے باوجود اس نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر شرارت کی۔ بہر حال اس صدارت کی حلف برداری کے موقع پر اشرف غنی نے حکومت پاکستان کو شرکت کی دعوت دینے کی بجائے پاکستان کے پختون سیاسی راہنماﺅں کو بلایا۔ پختونخواہ کے پشتون رہنماﺅں اور پاکستان دشمنی میں پیش پیش محسن داوڑ، علی وزیر، عارف وزیر کے علاوہ پی پی پی کے فرحت اللہ بابر، اے این پی کے افراسیاب خٹک اور پشتون نیشنلسٹ قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیر پاﺅ کے علاوہ بلوچستان سے KPK اور بلوچستان کو افغانستان کا حصہ قرار دینے والے محمود اچکزئی حلف برداری میں شرکت کیلئے گئے۔ محسن داوڑ اور علی وزیر کو جس طرح افغان ایجنسی NDS کی جانب سے جو پروٹوکول دیا گیا اور ہیلی کاپٹر دیا وہ یقیناً ایک تشویشناک امر ہے اور اس حقیقت کی نشاندہی کہ پاکستان دشمنی اور پختونخواہ میں شورش پیدا کرنے والے افغان حکومت اور ایجنسی کے کارندے ہیں اور افغان حکومت آج بھی پاکستان دشمنی میں مصروف عمل ہے۔
پاکستان کےخلاف بھارتی حکومت اور را کی سرگرمیوں میں معاون اشرف غنی کی حکومت اور این ڈی ایس کا کردار کبھی بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا، پاکستان کی افغانستان میں امن کے قیام اور خطہ میں بہتری کیلئے تمام کوششوں کے باوجود افغان حکومت کا رویہ بھارت کی پاکستان دشمنی کا حصہ ہی ہے۔ حلف برداری کے موقع پر محسن داوڑ اور علی وزیر نے جو زہر اُگلا وہ اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان کےخلاف بھارت افغان سازشوں میں ہمارے اندرونی دشمن بھی مسلسل مصروف ہیں اور ہماری افواج کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں قائم ہونےوالے امن کو تہہ و بالا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز انٹیلی جنس معلومات پر دہشتگردی کےخلاف کارروائی کے دوران کرنل مجیب کی شہادت اس کا واضح ثبوت ہے۔ ہم نے اپنے پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کے افغانستان میں قیام امن کیلئے تمام تر مثبت کردار کے باوجود، موجودہ افغان قیادت اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے باعث پاکستان کو ابھی بہت سے امتحانوں سے گزرنا ہے اور بھارت کے اپنے اندرونی انتشار سے نکلنے نیز افغانستان کے معاملے میں پاکستان کے کردار کو مسخ کرنے کیلئے ان دونوں قوتوں کے اشتراک سے ہمیں کسی بھی ایڈونچر سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے اندر یا مشرقی و مغربی جانب سے کوئی بھی ایسی سازش کی جا سکتی ہے جو پاکستان میں امن و امان اور عالمی منظر نامے میں پاکستان کی بہتر ہوتی ہوئی ساکھ کو متاثر کرے اور بھارت و مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کی مسلم دشمنی اور انسانی حقوق کی پامالی گھناﺅنی تصویر کو دھندلا سکے۔ ہماری گذارش تھی کہ پاکستان کے تمام سیاسی، ریاستی ادارے، میڈیا اور سماجی و دیگر حلقوں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم صرف اس وقت ہی متحد ہوتے ہیں جب سر پر ضرب پڑنے والی ہو ورنہ اپنے مفادات کے کھیل میں ہی مصروف رہتے ہیں بلکہ بعض معاملات میں تو اپنے فائدے کیلئے دانستہ یانادانستہ دوسروں کے آلہ¿ کار بھی بن جاتے ہیں گزشتہ ہفتے کے دوران رونما ہونےوالے واقعات ہمارے خدشے کو تقویت دیتے نظر آئے کہ جن سے پاکستان کا بہتر خارجہ پالیسی خصوصاً افغان امن معاہدے میں مثبت کردار کے عالمی منظر میں روشن پہلو نظر آیا۔ اُسے دھندلاہٹ میں تبدیل کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ 8 مارچ کودنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہونےوالے عورت مارچ کو ”میرا جسم میری مرضی“ کا عنوان دے کر ایک بحران پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ایک نام نہاد ہیومن رائٹ ایکٹوئسٹ ماروی سرمد اور خود کو بہت بڑا دانشور سمجھنے والے ڈرامہ رائٹر کو بٹھا کر ایک چینل نے فساد کا اہتمام کیا۔ نسبتاً کم معروف چینل پر ان دونوں نے جس قسم کی لچر اور غیر اخلاقی زبان استعمال کی اس نے پورے معاشرے کو بھونچال کی لپیٹ میں لے لیا۔ چار دن تک میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا پر جو کچھ بیان کیا گیا یا دکھایا گیا وہ پاکستان جیسے مسلم ملک تو کجا کسی بھی مہذب معاشرے کیلئے شرم کی نشاندہی تھی۔ خواتین کی مادر پدر، آزادی، غیر فطری اختلاط اور مردوں کی تحقیر کے پلے کارڈز، موضوع کی موافقت و مخالفت انتہائی گرے ہوئے القاب و الفاظ اس قدر شرمناک تھے کہ جن کو دہرانا یا تحریر کرنا بھی تہذیب و اقدار کے منافی ہے۔ غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والی این جی اوز کی جانب سے چھوڑا جانےوالا یہ شوشہ دراصل امریکی نائب سیکرٹری آف اسٹیٹ ایلس ویلز کے حالیہ دورہ¿ پاکستان میں این جی اوز کی بحالی کے مطالبہ کوپورا نہ کرنے کے رد عمل کے طور پر کھڑا کیا گیا۔ واضح رہے کہ ن لیگ کے دور میں چودھری نثار نے پاکستان مخالف سرگرمیوں کے باعث ان این جی اوز پر پابندی لگائی تھی۔ گویا یہ سب کچھ بھی ایک سازش کا حصہ تھا جس میں امریکہ سرکار کا مفاد تو پنہاں تھا ہی اس میں بھارت کا مفاد بھی کہ اس طرح پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرایا جائے، بھارتی میڈیا نے اس کا جس طرح ڈھنڈورا پیٹا وہ ہمارے تجزئیے کی صدیق کرتا ہے۔ پاکستان میں خواتین پر جنسی تشدد، ظلم و بربریت کا پروپیگنڈہ کرنے کا بھارتی میڈیا کا مقصد یہی تھا کہ وہ بھارت میں ہونےوالی تشدد خصوصاً عورتوں پر جرائم کی چشم پوشی کر سکیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بھارت میں ہر پندرہ منٹ میں ایک عورت پر جنسی تشدد عالمی سرویز کی تصدیق ہے۔
پاکستان اس وقت بھارت اور را کی دشمنانہ سرگرمیوں میں گھرا ہوا ہے اور اس کی اعانت جس طرح این ڈی ایس اور بھارت نواز افغان گروپ کر رہے ہیں ایسے وقت میں ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے مفادات کی ہوس میں بھارت کو فیضیاب کرنے کی بیان بازی سے بھی باز نہیں آرہی ہے۔ اچکزئی، داوڑ اور علی وزیر جیسے تو کُھلے غداری کے زمرے میں آتے ہی ہیں خود کو قومی پارٹی کہنے والی پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا بیان کہ حکومت چین کے علاوہ دیگر ہمسایہ ممالک سے تجارت کھولے کسی درپردہ سازش کا مظہر ہی نظر آتا ہے ایک ایسے وقت میں کہ مودی حکومت نے آٹھ ماہ سے کشمیر کا لاک ڈاﺅن کر رکھا ہے، دہلی اور دیگر ریاستوں میں مسلمانوں پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے اور پاکستان نے رد عمل کے طور پر بھارت پر تجارتی پابندیاں لگا رکھی ہیں، بلاول کا یہ بیان خالی ازعلت نہیں ہے۔ اپنے اندرونی انتشار کے باعث بھارت کی میعشت تنزلی کا شکار ہے اور بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، خود حکومت کے اپنے مشیر تجارت رزاق داﺅد کی منطق کہ کیمیکل کی درآمد پر پابندی ختم کی جائے، ذاتی مفاد کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ وزیراعظم اور کابینہ اس پر تیار نہیں ہوئے۔
موجودہ سیاسی حالات خصوصاً خطہ کی صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ ہمسایوں کی دشمنانہ چالبازیوں سے بچنے اور ملک کی بہتر صورتحال کو قائم رکھنے کیلئے اس وقت تمام اداروں کو متحد اور ایک پیج پر رہنے کی ضرورت ہے بلکہ سر پر ڈنڈا لگنے کی بجائے تمام قومی و ریاستی اداروں کو دشمن کی چالوں کی پیش بندی کرتے ہوئے ملکی و قومی وحدت کیلئے نہ صرف عملی اقدامات کرنے چاہئیں بلکہ ہر ادارے کا عمل خواہ حکومت ہو، سیاسی مخالفین، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، میڈیا و سوشل میڈیا دنیا بھر کیلئے ایک مضبوط، متحد اور نظریاتی ملک کا تاثرپیش کرے اور ملک کےخلاف مصروف ممالک و قوتوں کو یہ واضح پیغام پہنچے کہ وطن عزیز کے تحفظ، سلامتی، امن و خوشحالی کیلئے ہر ادارہ اور پوری قوم یکجا وتیار ہے۔
٭٭٭