کرونا عالمی وبا اور معیشت!!!

0
207
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

سید کاظم رضوی

تمام قارئین کو سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے جس طرح عالمی وباءنے دنیا کو اپنے شکنجے میں لیا ہے اور موت کا رقص ہر ملک وقوم دیکھ رہی ہے، اپنے گھروں میں ٹیلی ویژن ، فون و دیگر ذرائع اطلاعات ان کو ہر لمحہ کتنے نفوس موت کی وادی میں جاچکے اعداد وشمار پیش کررہے ہیں ، ہر گزرتے روز اس تعداد میں اضافے کی خبریں ہر باخبر اور زی شعور کو انجانے خوف میں مبتلاءکررہی ہیں۔ جہاں اس عالمی وباءکے اثرات دنیا میں انسان کو نفسیاتی اور دنیاوی صدمات سے دوچار کررہے ہیں وہیں اب جن لوگوں کی فکرہے وہ پیچھے زندہ بچ جانے والے یا اس مرض سے شفایاب ہونے والے لوگ ہیں پوری دنیا کے مسائل کا اس چھوٹے سے چند پیراگراف پر مشتمل کالم میں احاطہ کرنا مشکل ہے، اس لیے کوشش کرتا ہوں جس ملک میں رہتا ہوں ریاستہائے متحدہ امریکہ کا اس کے پس منظر کو اور آنے والی مشکلات کاذکر کیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ دنیا کے دیگر ممالک ان بڑی معیشتوں کے مرہون منت ہیںاور یہاں کی حکومتوں اور معیشت پر آنے والے اثرات کا رد عمل پوری دنیا کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے ،وہ اس بات کو مانیں یا نہ مانیں۔ دنیا کی دو بڑی معیشتوں جاپان اور امریکہ میں سن 80اور90 کی دہائی میں مقابلہ تھا ،اسکا حل انہوں نے جاپانی کرنسی کو طاقتور بناکرکردیا، اسکا نتیجہ یہ نکلا جو کاریں اور اشیائے صرف کا ایک بڑا فرق تھا وہ ختم ہوگیا اب امریکن کاریں ہوں یا جاپانی پورا مشرق وسطی ٰجو تیل کی دولت سے مالا مال ہے ،اب امریکی منڈی میں دلچسپی لینے لگا اور امریکہ کی درآمدات میں بہت اضافہ ہوا اورمعیشت پنپنے لگی یہ سب کام درجہ وار مراحل میں ہوا اور امریکہ کے جاپان پر اثر و رسوخ نے ایک بڑا کردار ادا کیا لیکن پھر خاموشی سے چائینہ نے دنیا کو حیران کردیا اور اپنی مصنوعات جو امریکی و جاپانی یا یورپی مصنوعات سے کہیں ارزاں قیمتوں پر دستیاب تھیںدنیا کو اپنی طرف متوجہ کردیا ،اس کا حل امریکہ نے یہ نکالا کہ یہاں کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری اور دیگر صنعتیں سستی اشیاءکا فائدہ اٹھانے کیلئے چائینہ سے دوستی اور قانونی معاہدے کرکے وہاں ٹرانسفر کردی اب قریباًایک دہائی بعد جب حالات کو لگام دینے اورپھر کچھ اصلاحات کا وقت آیا تو پتہ چلا چائینہ جاپان نہیں یا کوئی دوسرا ملک ایک آزاد اور اپنی پالیسیوں پر عمل کرنے والا ملک ہے لیکن جب تک کافی دیر ہوچکی تھی۔ اب حالات پلٹا کھاتے ہیں اور دو بڑے ملک و معیشتیں اپنے عزت و وقار کے ساتھ مفادات کو مدنظر رکھ کر ایسے طریقے سوچنے پرمجبورہیں جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ان تمام حقائق میں ہندوستان اور ساﺅتھ کوریا کے ساتھ مشرق وسطیٰ کاکردار ابھی آگے آئیگا جن کو بیک فٹ پر کھیلنے کیلئے اور سدباب کیلئے کہیں قربانی کا بکرا بننا پڑیگا، کس طرح اب اگلی اقساط میں ملاحظہ فرمائیں کالم کافی بڑا ہوگیا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here