جاوید رانا
تین ماہ ہونے کو آئے کہ ساری دنیا صدی کے بدترین قہر سے دوچار ہے، دنیا کے 210 ممالک کرونا کے مہیب ترین وائرس کا شکار ہو کر نجات کی راہ ڈھونڈنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اس بلاءسے نکلنے کیلئے دنیاوی اقدامات کے ساتھ ہر ملک ہر قوم رب کائنات کو راضی کرنے کیلئے اپنے اپنے انداز میں دعاﺅں، عبادات وغیرہ پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس وباءنے اپنی ہولناکیوں سے ہر ایک کو خدا یاد دلا دیا ہے۔ اس سے سب سے زیادہ متاثر ممالک سے قارئین بخوبی واقف ہیں اور دنیا بھر کا ہر میڈیا، ہر قیادت اور ہر متعلقہ ادارہ اس حوالے سے تازہ ترین اعداد و شمار مسلسل بتا رہا ہے۔ ایسٹر جیسے اہم ترین مذہبی تہوار پر ویٹی کن سٹی میں پوپ نے تنہا ایسٹر کی تقریب سر انجام دی، اور لوگوں کی شرکت پر پابندی رہی۔ دنیا بھر میں عیسائی برادری نے یہ عبادات گھروں میں ہی انجام دیں۔ عبادات کے حوالے سے حرم کعبہ اور مسجد نبوی نیز دیگر ممالک میں مساجد میں اجتماعات کی پابندی کا آپ کو علم ہی ہے لیکن اس صورتحال کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ مسلم اُمہ اور ممالک کے علاوہ دیگر مذاہب بھی دین مبین کی افادیت و اہمیت کو تسلیم کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے تلاوت قرآن کا اہتمام اور دعا، جرمنی و اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں اذانوں کا دیا جانا، اس امر کا ثبوت ہے کہ اللہ کی بڑائی اور اختیار کا اعتراف غیر مسلم بھی کر رہے ہیں لیکن اس آزمائش کی گھڑی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس حقیقت کے باوجود کہ اللہ کے کرم سے اس وباءکے اثرات دیگر ترقی یافتہ اور طبی سہولیات کے حامل ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہیں، پاکستان کی سیاسی و مذہبی اشرافیہ، میڈیا حتیٰ کہ عوام کے اطوار اس طرح کے ہیں جو کسی بھی طرح موجودہ حالات سے نکلنے کی تدبیر نہیں لگتے۔ مذہبی ٹھیکیداروں کی اکثریت مساجد میں نماز باجماعت، تبلیغی اجتماعات اور مزارات پر عرس وغیرہ کے انعقاد پر بضد ہے، سیاسی برزجمہر اپنی سیاست اور مفادات کے بھنور میں گھرے ہوئے ہیں۔ اور میڈیا کے بقراط اپنی ریٹنگ میں اضافے کیلئے دور کی وہ کوڑیاں لا رہے ہیں جو اس آزمائش میں تو کُجا، عمومی صورتحال میں بھی ممکن نہیں۔
پچھلے ہفتے کے واقعات پر ہی نظر ڈالیں تو ہمارے مو¿قف کی وضاحت ہو جاتی ہے، شوگر اور آٹے کی رپورٹ پر تو حکومت اور مخالف سیاسی قیادت، اسی حوالے سے کپتان اور جہانگیر ترین کے مابین تنازعتی افواہوں اور میڈیا کے تجزیوں، تبصروں اور آمدہ پیشگوئیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کرونا کا طوفان ا ن کے پیش نظر کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ایک جانب وفاق حکومت اور صوبہ سندھ کے درمیان کرونا کے حوالے سے الزام جواب الزام کا تسلسل ہے تو دوسری جانب ن لیگی حکومت پر کرونا کے کیسز میں اضافے کی ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اپنے قائد کے حوالے سے اس پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ وہ اس وباءکے حوالے سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت ہر وہ اقدام کر رہی ہے جو ممکن ہو سکتا ہے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے خاندانوں کی مالی امداد، خوراک کی فراہمی سمیت تمام احتیاطی اقدامات کے یقین و عمل کیلئے فوج، رینجرز اور دیگر ادارے بھی سرگرم عمل ہیں۔ ان تمام اقدامات کے باوجود سیاسی رنجش اور ایک دوسرے پر تحفظات کا رنگ وفاقی اور صوبائی حکومتوں بالخصوص وفاقی اور سندھ کے درمیان واضح نظر آرہا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ وائرس سے بچاﺅ، متاثرہ افراد کے علاج، لاک ڈاﺅن کے باعث امدادی سرگرمیاں کے متاثر ہونے کےساتھ متاثرین کی اصل تعداد کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔ ڈاکٹر اور طبی عملے کی شکایات سامنے آرہی ہیں۔ امدادی کارروائیوں میں رخنہ پڑ رہا ہے اور لوگ اپنے معاشرتی مزاج کے باعث گھروں تک محدود رہنے کے بجائے اجتماعی سرگرمیوں میں مگن ہیں۔ کراچی، لاہور سمیت کئی شہروں کے مختلف علاقوں کو سیل کر دیا گیا ہے لیکن کرونا کے متاثرین میں بے حد اضافہ ہو رہا ہے۔
ان تمام حالات کے باوجود، سیاسی منافرتوں اور افواہ سازی کا بازار گرم ہے۔ سینئر سیاستدان اور تجزیہ کار شہزادہ عالمگیر نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کر دیا کہ وزیراعظم نے اسمبلیاں توڑنے کی سمری صدر کو بھجوا دی ہے وجہ اس کی یہ بیان کی کہ ترین کے قومی و پنجاب اسمبلی میں 60 فیصد اراکین کے ان کے حامی ہونے کے دعوے کے پیش نظر اسمبلی میں تبدیلی کے خدشے کے حفظ ماتقدم کے طور پر وزیراعظم نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ اس خبر پر وزیراعظم کے حمایتی صحافیوں اور اینکرز نے اس خبر کو مسترد کر دیا اور دعویٰ کیا کہ صدر نے قطعی طور پر تردید کر دی ہے۔ مخالف میڈیا نے وزیراعظم کےخلاف مو¿قف کرتے ہوئے اسے نہ صرف عمران اور ترین کے درمیان اختلاف کا شاخسانہ قرار دینے کی کوشش کی بلکہ اس حد تک گئے کہ اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم سے مطمئن نہیں ہے اور قومی حکومت کے قیام کے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو کی راولپنڈی میں اہم ترین شخصیت سے ملاقات نیز سعد رفیق کی پرویز الٰہی سے ملاقات کی خبروں نے قومی حکومت کے مفروضے کو مزید تقویت دینے کا تاثر ظاہر کیا گیا۔
وزیراعظم بھی اس ابتلاءکے وقت لگتا ہے کہ سارے گڑے مُردے اکھاڑنے پر بضد ہیں۔ آٹے اور شوگر کی رپورٹوں اور فرانزک رپورٹ کا شور ابھی کم نہیں ہوا ہے کہ قرضوں کی دھاندلی اور نجی بجلی کمپنیوں (IPPS) کے معاہدوں کے حوالے سے رپورٹس کا پیغام اور اس کے اثرات پر بیان بازیاں اور سیاسی نتائج کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ عقل کے اندھے اور مفادات کے مارے سیاستدانوں کو اتنی سمجھ بھی نہیں کہ موجودہ نارسا حالات میں جن سے ساری دنیا کا نظام تہہ و بالا ہو گیا ہے، پاکستان اور جنوبی ایشیاءکے حوالے سے WHO کے خدشات سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی یا خاتمے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا، اس وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ یکجائی سے کرونا کےخلاف نبرد آزماءہیں تو اس تسلسل میں کوئی بھی رخنہ کسی بھی طرح ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا متبادل کرپٹ شریف یا زرداری ہر گز نہیں ہو سکتے تو ایسے میں صرف اپنے مفاد کیلئے مخالف سیاستدان اور میڈیا کے لوگ وطن دشمنی ہی کر رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اُُڑتا ہوا تیر لینے کے موڈ میں ہر گز نہیں ہوگی۔ ادھر عمران خان نے اقوام متحدہ اور عالمی مالیاتی اداروں سے ترقی پذیر ممالک کے حوالے سے خطاب اور امریکہ سے ایران پر عائد پابندیوں کی عارضی تنسیخ کی اپیل کر کے خود کا عالمی سطح کا پاکستانی رہنما ثابت کر دیا ہے جس نے ان کی وزارت عظمیٰ کے تسلسل کو مزید مضبوط کر دیا ہے، مخالفین کے پاس اب کوئی راستہ نہیں۔
ان حالات میں اور خصوصاً اس وقت کہ جب بھارت اپنے اندرونی انتشار، خصوصاً اپنے جاسوس ڈرون کے مارے جانے کے رد عمل پر کھسیانی بلی بنا ہوا ہے۔ LOC پر مسلسل کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے ہماری سیاسی اشرافیہ اور میڈیا سے درخواست ہے کہ ملک و قوم کے تحفظ کیلئے سلامتی اور کرونا سے نجات کیلئے خدا کے واسطے اپنی مفاداتی و متنازعہ حرکتوں سے باز آئیں اور ایک قوم بن کر ان تمام اقدامات کا حصہ بنیں جن سے کرونا کی وباءکا تدارک کیا جا سکے اور ملک و قوم کا تحفظ ہو۔ یہ سیاست کا وقت نہیں اتحاد کا وقت ہے۔
٭٭٭