بنگلہ دیش میں ایک صحافی کی گمشدگی !!!

0
183
حیدر علی
حیدر علی

حیدر علی

جب کبھی صحافی کی مت ماری جاتی ہے تو وہ کسی سیاستدان کی پگڑی اچھال دیتا ہے، اور پھر اُسے مجبورا”جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے یہی روایت بنگلہ دیش ، بھارت اور پاکستان کے صحافیوں کا نوشتہ تقدیر ہے اور اِس کے تازہ ترین شکار بنگلہ دیش کے فوٹو جرنلسٹ شفیق الا سلام کاجل بن گئے ہیں، شفیق الاسلام کاجل کی کہانی دلچسپ کے ساتھ ساتھ حیران کُن بھی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے سینے میں بنگلہ دیش کے سیاستدانوں کی زندگی کے بارے میں خفیہ رازوں کا خزینہ چھپائے ہوئے ہیں اور وہ اِس کا تبادلہ اپنے گھر کے افراد سے بھی کرنا پسند نہیں کرتے۔
شفیق الاسلام کاجل بنگلہ دیش کے اخباروں اور ٹی وی کے چینلز کی خبروں کی شہ سرخی اُس وقت بنے جب وہ 53 دنوں سے مکمل لاپتہ رہنے کے بعد اچانک بھارت – بنگلہ دیش کی سرحد پر ورلڈ پریس فریڈم کے دِن نمودار ہوگئے اور اُنہیں ممنوعہ علاقے میں بلا اجازت گشت کرنے کے الزام میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ بنگلہ دیش بارڈر گارڈز کا کہنا ہے کہ وہ اُنہیں دھان کے کھیت میں چہل قدمی کرتے ہوئے پایا تھا۔ یہ بھارت اور بنگلہ دیش کا سرحدی علاقہ بینا پول کا تھا،شفیق الاسلام کے بیٹے مونوروم پولوک کا کہنا ہے کہ 10 مارچ کی گہری شب کو کسی نے اُن کی والدہ کے فون پر اُنکے والد کے بارے میں پوچھا تھا۔ اُنہوں نے اُسے جواب دیا کہ وہ تا ہنوز لاپتہ ہیں اور پھر پولیس آفیسر نے فون اُنکے والد کے حوالے کردیا۔ اُنکے والد نے جو بات سب سے پہلے اُنہیںکہی، وہ یہ تھی کہ وہ زندہ ہیں اور وہ آکر مجھے بینا پول سے لے جائیںتاہم شفیق الاسلام کا بیٹا جب اُنہیں لانے کیلئے روانہ ہوا ، اِسی دوران بنگلہ دیش پولیس نے شفیق الاسلام کے خلاف ایک مقدمہ غیر قانونی طور پر بھارت سے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کے الزام میں دائر کر دیا۔
باپ اور بیٹے میں پہلی ملاقات عدالت کے کٹہرے پر ہوئی ، جہاں شفیق الاسلام کو ہتھکڑی پہناکر وہیل چیئر پر لایا گیا تھاتاہم اُن کی خوشی کی ساعت چند لمحہ بعد ہی پھلجھڑی بن کر فضا میں بکھر گئی۔پہلے مقدمہ کی ضمانت اُن کے وکیل نے کروالی تھی لیکن اُنہیں رہا کرنے کے بجائے مجسٹریٹ نے اُن پر ایک اور مقدمہ سیکشن 54 جس کے تحت الزام علیہ کو بغیر کسی وارنٹ کے گرفتارکیا جاسکتا ہے کا دائر کردیا ۔جیسور کوتوالی پولیس سٹیشن کے انچارج منیر الزمان نے اِس امر کی وضاحت کرتے ہوے کہا کہ شفیق الاسلام کی دوبارہ گرفتاری کی وجہ یہ تھی کہ اُن پر ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت تین مقدمات ڈھاکا میں درج تھے۔ پولیس انچارج نے مزید کہا کہ شفیق الاسلام کو جیسور کے سینٹرل جیل بھیج دیا جائیگا، جہاں وہ دوہفتے تک قرنطینہ میں مقید رہیں گے۔
بنگلہ دیش میں ڈیجیٹل سیکورٹی ایکٹ جسے عرف عام میں وہاں ہلسا ماچھ قانون بھی کہا جاتا ہے 2018 ءمیں نافذ ہوا ہے، ہلسا ماچھ قانون اِسلئے کہ اُس مچھلی کی یہ فطرت ہے کہ وہ سمندر سے دریا اور دریا سے سمندر میں جاکر بودو باش اختیار کرنے کی عادی ہوتی ہے اگرچہ وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے ڈیجیٹل ایکٹ قانون کے نفاذ کے وقت بنگلہ دیشی عوام کو یہ باور کرایا تھا کہ اِسکا استعمال صرف سائیبر اور انٹرنیٹ کے فراڈ کرنے والوں کے خلاف ہوگا لیکن حقیقت جو اب سامنے آئی ہے کہ صرف اور صرف صحافی حضرات اِس ہلسا ماچھ قانون کے ہدف بن رہے ہیں۔کسی ایک صحافی کی مہم جوئی کے پاداش میں اخبار کے سارے کارکن ایڈیٹر سے لے کر چپراسی تک کو نذر زنداں کر دیا جاتا ہے ، اور اُن پر مقدمات کی کاروائی اُس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کہ وہ کان پکڑکر توبہ نہیں کر لیتے ہیں۔ایک جانب اِس قانون کا بے دریغ استعمال بنگلہ دیشی صحافیوں کے خلاف کیا جاتا ہے، تو دوسری جانب پولیس والوں کو جس کسی سے بھی رشوت لینی ہوتی ہے اُسے اِس الزام کے تحت گرفتار کرکے مقدمہ دائر کر دیتی ہے۔ تازہ ترین مثال ڈھاکا کے ایک سبزی فروش کی ہے ، جسے پولیس نے ڈیجیٹل سیکورٹی ایکٹ کے تحت محض اِس لئے گرفتار کیا تھا کہ وہ کسی دوسرے سبزی فروش کے ٹھیلے کی تصویر کھینچ رہا تھا، پولیس نے الزام لگایا کہ وہ کسی خاتون کی تصویر کھینچنے کی کوشش کر رہاتھا۔
تازہ ترین شفیق الاسلام کاجل اور 31 دوسرے افراد کے خلاف ڈی ایس ایکٹ کا ایک مقدمہ عوامی لیگ کے ایک سرکردہ رکن پارلیمنٹ سیف الزمان شکور نے درج کروایا تھا، اُنہوں نے الزام لگایا تھا کہ مذکورہ افراد اُن کے خلاف مبینہ طور پر ایک جھوٹی رپورٹ میڈیا میں شائع کر وارہے ہیں۔ حقیقت میں یہ وہی رپورٹ ہے جو عوامی لیگ کی حکومت کو متزلزل کرنے والی ہے اور اِس رپورٹ کے خالق شفیق الاسلام کاجل ہیں جن کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ عوامی لیگ کے سرکردہ وزراءاراکین پارلیمنٹ اور دوسرے اعلی افسران ڈھاکا کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں پارٹی کا اہتمام کرتے ہیں، جس میں ڈرگ اور اسلحہ کے خرید و فروخت کا بازار گرم ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ شراب ، کباب اور سیکسی اور ماڈل لڑکیوں سے وزراءکی تواضع کی جاتی ہے۔مزید برآں سیف الزمان شکور کا سیکس ایسکورٹ سروس جو عوامی لیگ کی خاتون معطل رہنما شمیمہ نور پاپیا چلا رہی تھی سے بھی روابط ہیں، ورلڈ پریس فریڈم انڈکس کی رپورٹ میں بنگلہ دیش کا 180 ممالک میں 151جبکہ پاکستان کا 145 نمبر ہے۔بہر نوع یہ حقیقت شرمناک ہے کہ ایک صحافی کے 53 دنوں تک لاپتہ رہنے کے باوجود بنگلہ دیش کی پولیس ماسوائے زبانی جمع خرچ کے کہ وہ چھان بین کر رہی ہے، اُن کی بازیابی کیلئے کچھ بھی نہ کر سکی ۔ شفیق الاسلام کاجل بنگلہ دیش کے ایک شہری، ایک صحافی، ایک فیملی پرور ، ایک باپ، ایک شوہر ، ایک ٹیکس پیئر ، یہ سب کچھ بھی پولیس کے ضمیر کو نہ جگا سکا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here