اسلام آباد:
سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مقبول باقر نے حکومتی وکیل فروغ نسیم سے کہا کہ فروغ نسیم صاحب یہ بات بھی یاد رکھیے گا ایک جمہوری حکومت ججوں کی جاسوسی کرنے پر ختم ہو چکی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10رکنی فل کورٹ نے سماعت کی، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپکی جانب سے پیش کئے گئے سوالات کا بغور جائزہ لیا ہے تاہم ان میں اکثر سوال ضروری نہیں، ہم آپکو تفصیل سے سنیں گے، گزشتہ سماعت پر آپ نے اے آر یو پر چند مثالیں دی تھیں۔
فروغ نسیم نے کہا بنیادی سوال ہے کہ کیا جج پر قانونی قدغن تھی کہ وہ اہلیہ اور بچوں کی جائیداد ظاہر کرے، درخواست گزار کا موقف ہے کہ اہلیہ اور بچے انکے زیرکفالت نہیں، آرٹیکل 209 میں مس کنڈکٹ کی تعریف نہ کرنا دانستہ ہے، اس لئے دیگر انتظامی قوانین سے اصول لیے جائیں گے ،جسٹس منیب اختر نے کہا دیگر تمام قوانین کا ماخذ آئین ہے، اس لیے بہتر ہوگا مس کنڈکٹ کی تعریف آئین کے تحت ہی دیکھی جائے، فروغ نسیم نے کہاجج کی اہلیہ بھی ایمنسٹی نہیں لے سکتی، قانون میں بچوں کے لیے تو پھر بھی زیرکفالت کا ایشو ہے ، اہلیہ کے لیے ایسا کچھ نہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا جج یا اہلیہ سے جائدادوں کے بارے میں کسی نے نہیں پوچھا، فروغ نسیم نے کہاجج سے سوال کا حق صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے، جسٹس مقبول باقر نے کہا حقیقت میں یہ ثابت کرنا ہے کہ اہلیہ کی جائداد ظاہر نہ کر کے جج نے قانونی تقاضہ پورا نہیں کیا ، فروغ نسیم نے کہا پاناما کیس میں نواز شریف نے یہی کہا تھا کہ بچوں کی جائداد کا مجھ سے مت پوچھیں،اس کیس میں بھی تینوں جائدادوں کا آج تک نہیں بتایا گیا، مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔