حیدر علی
جارج فلائیڈ کی بے جا ہلاکت پر ہونے والے مظاہروںکے دوران جہاں چمکتے دمکتے بڑے بڑے اسٹوروں ، ریسٹورنٹس اور دفاتر کو لوٹ لیا گیا ، وہاں چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے نجی دکانوں کے مالکان بھی اِس کے عتاب سے باز نہ رہ سکے میرے ایک دوست جو معروف شاعر ہیں ، اُنہوں نے اپنی شیروانی ڈرائی کلیننگ کے لئے دی تھی تاکہ آئندہ مشاعرے میں وہ اُسے زیب تن کر کے مشاعرے میں شرکت کر سکیں لیکن گذشتہ بدھ کے دِن اُنہیں ایک کال موصول ہوئی جس میں اُنہیں یہ اطلاع دی گئی کہ ڈرائی کلیننگ پر لٹیروں کے حملے اور توڑنے پھوڑنے کی واردات میں اُن کی شیروانی بھی لاپتہ ہوگئی ہے، اِس لئے وہ اِسے بھول جائیں ہمارے دوست نے فورا©”پوچھا کہ کیا اُنہیں اُس شیروانی کا کوئی معاوضہ ملے گا، تو ڈرائی کلیننگ کے مالک نے جواب دیا کہ یہ کوئی لکھنﺅیا الہ آباد نہیں جہاں معاوضہ دیا جاتا ہے یہاں رسیدوں پر واضح الفاظ میں یہ تحریر کردیا جاتا ہے کہ شیروانی کو آگ لگنے یا چوری ہونے پر کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جائیگامیرے دوست نے فورا”بھاڑ میں جاﺅ کمبختوں کہہ کر ٹیلیفون ہینگ اپ کردیابہرکیف آپ خود ہی بتائیں کہ سٹار بکس (Starbucks) کو لوٹنے کا کیا کوئی جواز موجود تھا ؟ لیکن لاس اینجلز میں اُسے بھی نہیں بخشا گیااور اُس کے شیشے کی دیواروں کو توڑ کر لٹیرے تمام کافی میٹس اٹھاکر لے گئےجان ولیم جس نے شکاگو کے ایک انڈین سٹور کو لوٹا تھا اِس کشمکش میں مبتلا ہے کہ وہ شان مصالحہ کے 43 ڈبوں کو کیا کریگا، جب اُس نے اچار کی ایک بوتل کو کھول کر آم کے ایک ٹکرے کو چکھا تھا تو اُسے گھنٹوں زبردست کھانسی آنے لگی تھی ولیم نے یہ سوچا کہ جب حالات معمول پر آجائینگے تو پھر وہ اُسی سٹور پر جاکر دریافت کریگا کہ آخر انڈین اتنا کھٹا اچار کس طرح کھاتے ہیں؟فلاڈیلفیا پارک ویسٹ ٹاﺅن سینٹر میں واقع شاپ رائیٹ کے سٹور کوسماج دشمن عناصر 15 گھنٹے تک لوٹتے رہے شاپ رائیٹ کے مالک نے بتایا کہ لوٹنے کی واردات شام کے سات بجے شروع ہوئی تھی ، اور جو مسلسل دوسرے دِن صبح کے دس بجے تک جاری رہی اُس نے کہا کہ اُس نے پولیس ، 911، میئر اور گورنر کو سینکڑوں مرتبہ کال کرکے مدد کی اپیل کی تھی لیکن مدد 15 گھنٹے بعد پولیس کی صورت میں پہنچی، جب سٹور خالی ہوچکا تھا فلاڈیلفیا میں ایک اِسلامک سٹور پر بھی ڈاکہ ڈالاگیاجہاں سے لٹیرے حجاب، عبا ، تعویزیں اور جائے نماز اٹھا کر لے گئے اور سٹور کو ایک گھنٹے میں خالی کردیا
رچمنڈ ، ورجینیا کا ایک تاریخی جیولری سٹور والر اینڈ کمپنی جو 1900 ءمیں ایک سیاہ فام امریکی نے قائم کیا تھا بھی لٹیروں کی ہوس نگاہ کا نشانہ بن گیا والر اینڈ کمپنی کے مالک رچرڈ والر نے بتایا کہ جب اُنکے سٹور پر مسلسل گذشتہ جمعہ اور سنیچر کی شب تخریبی کاروائی کی گئی تو اُنہوں نے خود اتوار کی رات اپنے سٹور کی نگرانی کی ذمہ داری سنبھال لی لیکن تین گھنٹے تک سٹور کے باہر کھڑے رہنے کے بعد اُنہیں خود اپنی زندگی خطرے میں نظر آنے لگی، اور وہ اپنے گھر چلے گئے اِسی دوران لٹیرے تمام اوزار اور آلات سے مسلح ہوکر اُنکے سٹور پر حملہ کردیامسٹر رچرڈ نے مزید بتایا کہ رچمنڈ میں مشکل حالات کے دوران اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے، اور آج مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں رضا کار ہمارے شانہ بشانہ سٹور کی صفائی ، تزئیں و آرائش میں مصروف ہیںاِن ساری باتوں سے پتا یہی چلتا ہے کہ لٹیروں کا کوئی مذہب کوئی رنگ نہیں ہوتا ہے، وہ بلا رنگ و نسل کے تمام لوگوں کے کاروبار یا دکانوں کو لوٹتے ہیںلٹیروں نے لاس اینجلز کی سیاہ فام آبادی میں واقع شادی کے گاﺅ ن فروحت کرنے والے ایک سٹور
کو بھی اُس وقت لوٹ لیا جب وہاں ایک دوشیزہ اپنی شادی کے گاﺅن لینے گئی تھیوہ دوشیزہ لٹیروں کی منت سماجت کرتی رہی، لیکن اُس کوئی شنوائی نہیں ہوئی
دیکھنے میں ایک چھوٹی سی بات تھی جس پر ایک قیامت خیز طوفان بپا ہوگیا 25 مئی کو جارج فلوئیڈ
اپنے گھر کے ایک قریبی سٹور گیا، جہاں اُس نے سگریٹ خریدنے کے بعد ایک 20 ڈالر کی نوٹ سے
ادائیگی کی سٹور کے ملازم کو یہ شبہ ہوا کہ نوٹ جعلی ہے، اور اُس نے پولیس کو اِس کی اطلاع دے دی عموما”صارفین کو دکاندار، ٹیکسی ڈرائیورز یا گیس سٹیشن والے خود جعلی بِل تھمادیتے ہیں، اور صارف کو پتا اُس وقت چلتا ہے جب وہ اُسے استعمال کرتے ہیںاتنی سی بات پر پولیس کو بلا لینا ایک قابل اعتراض اقدام ہے بہرکیف پولیس والے جب جارج فلوئیڈ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو وہ ایک گاڑی میں اپنے دوستوں کے ہمراہ بیٹھا تھا اِسی دوران پولیس آفیسر ڈیرک شووِن نے جارج فلوئیڈ کو گاڑی سے گھسیٹ کر نکالنے کی کوشش کیجب چار پولیس آفیسرز اُسے نکالنے میں کامیاب ہوگئے تو شووِن اُس کی گردن پر اپنی ایک ٹانگ رکھ کر جارج فلوئیڈ کو نیم جاں کرنے کی کوشش کی وہ یہ عمل 9 منٹ تک جاری رکھا جب تک کہ جارج فلوئیڈ نے یہ سرگوشی نہ کی کہ وہ سانس نہیں لے سک رہا ہے جارج فلوئیڈ چند ساعت بعد ہی مکمل طور پرمردہ جاں ہوچکا تھا
امریکا میں غیر مسلح افراد کو پولیس کا ماﺅرائے عدالت قتل کردینا ایک معمول بن گیا ہے سال 2015 ءمیں پولیس نے کم ازکم 104 غیر مسلح سیاہ فام امریکی کو بہیمانہ تشدد سے ہلاک کیا تھا یہ اعداد و شمار اِس وجہ کر بھی بہت زیادہ ہیں ، کیونکہ امریکا میں سیاہ فام باشندوں کی تعداد صرف اگیارہ فیصد ہے ، جبکہ ہلاک ہونے والے تقریبا” چوبیس فیصد ہوتے ہیں