اسلام آباد چڑیا گھر کے ہاتھی کو کمبوڈیا بھیج دیا گیا

0
153
حیدر علی
حیدر علی

 

حیدر علی

شومئی قسمت کہ پاکستان کا و احد ہاتھی کاوان جو اسلام آباد کے مرغزارچڑیا گھر (Zoo (میں مقیم تھا وہ حکام کی ناعاقبت اندیشی کی بناءپر ترک وطن کرنے پر مجبور ہوگیا، اِسی کے ساتھ پاکستان دنیا کے چند ممالک میں شمار کیا جانے لگا جہاں کوئی بھی ہاتھی موجود نہیں، بنگلہ دیش جہاں ڈھاکہ کے جانور خانہ میں چار ہاتھیاں تماشابیں کو اپنے کرتب سے شب و روز محفوظ کرتیں ہیں، بہرکیف بنگلہ دیش سے کیا مقابلہ ، ڈھاکہ ، میرپور کا چڑیا گھر 186 ایکڑ کے احاطہ میں واقع ہے جبکہ اسلام آباد کا چڑیا گھر صرف 82 ایکڑ پر بدنظمی ، کرپشن اور نا اہلیت کا ایک نمونہ بنا ہوا ہے، رقبہ کے لحاظ سے پاکستان مقابلتا”بنگلہ دیش سے چھ گنا بڑا ملک ہے۔مرغزار چڑیا گھر کی زبوں حالی جسے دنیا بھر کے ماہر حیوانیات اپنی تنقید کا ہدف بنائے ہوے ہیں حتیٰ کہ پاکستان ہائی کورٹ کے ایک جج نے فرائض ، سہولت اور مالی فراوانی کی عدم دستیابی کی وجہ کر اِس کی بندش کا حکمنامہ بھی صادرکر دیا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیںکہ سیاستدانوں کی نظر اسلام آباد کی 82 ایکڑ زمین پر جمی ہوئی ہے ، جس پر اُنکی عالیشان کوٹھی یا اپارٹمنٹ کمپلکس اور شاپنگ مال کی تعمیر ہو سکتی ہے۔ایک اطلاع کے مطابق چڑیا گھر کے حکام کنٹریکٹرز کو یہ حکم فرماتے ہیں کہ ضعیف المرگ شیر کیلئے حلال گوشت فرام کیا جائے تاکہ اُس کا نصف حصہ اپنے گھر کے سالن میں استعمال کیا جاسکے۔ چڑیا گھر کے شاہدین نے یہ بات شدت سے محسوس کی ہے کہ معقول غذا کی نا فراہمی کی وجہ تمام جانور کمزور ، لاغر اور غیر متحرک نظر آتے ہیں۔کاوان ہاتھی کی بھی اپنی ایک درد بھری کہانی ہے، 1980 ء میں سری لنکا کی حکومت نے بطور تحفہ اِسے پاکستان کی حکومت کو وہاں کے سرکشوں کو کچلنے کے صلہ میں صدرجنرل ضیا الحق کو دیا تھا، یہ ایک نر ہاتھی تھا ، جس کی دِل بستگی کیلئے ایک دلہن کی تلاشی شروع کی گئی اور بنگلہ دیش سے ایک مادہ ہاتھی بنام ساحلی اسلام آباد منگوائی گئی لیکن ساحلی کو پنجاب کی سرزمین راس نہ آئی اور اُسکے تعلقات روز اول سے مہاوت سے کشیدہ رہے۔ خصوصا”اُس دِن کے بعد سے جب مہاوت نے تماشا ئیوں کے سامنے اُسے سلام کرنے کا حکم دیا تھالیکن ساحلی بجائے سلام کرنے کے اپنے جسم کو 180 ڈگری موڑ کر پشت کی جانب کر لیا تھا جن لوگوں نے بنگلہ دیشی ہاتھی کو بنظر غائر دیکھا اُن کا کہنا ہے کہ مہاوت اُسے تشدد کا نشانہ بنایا کرتا تھا اور جو زخم اُسے آتے تھے اُس کے مندمل کیلئے کوئی علاج و معالجہ کا انتظام بھی نہ تھا، یہ ایک عام شکایت ہے کہ اسلام آباد کے جانور خانہ میں ڈاکٹروں کی شدت سے کمی ہے جس کی وجہ کر بے شمار جانور ہلاک ہو جاتے ہیں، ساحلی بھی اِن ہی صعوبتوں کو برداشت کرتے کرتے موت کے آغوش میں سو گئی۔ 12 سال سے اپنی شریک حیات سے جدائی کا اثر کاوان ہاتھی کے دِل و دماغ پر بہت زیادہ پڑا، وہ ہمیشہ ناراض نظر آنے لگااعلی سرکاری حکام ایک اور مادہ ہاتھی کا اُس کی ہمراہی کیلئے بندوبست کرتے ، وہ اُس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تدبیریں سوچتے رہے، جانوروں کے تحفظ کیلئے آواز بلند کرنے والے اکٹوسٹ بھی کاوان ہاتھی کے بارے میں ٹوئٹ کرنا شروع کردیا، جب امریکا کی پوپ گلوکارہ اور اداکارہ چیئر (Cher) جو اب تقریبا”ریٹائرڈ ہوچکی ہے کی نظر ٹوئٹ پر پڑی تو اُس نے کاوان ہاتھی کی جان بچانے اور اُسے آسودگی کے چند لمحات مہیا کرنے کا عزم کیا، چیئر نے اپنے چند تاجر دوستوں کے ساتھ اِس ضمن میں اعلیٰ پاکستانی حکام سے روابط شروع کئے ، جو سالوں سال چلتے رہے، اِس دوران کاوان ہاتھی کی صحت رو بہ انحطاط رہی۔
تاہم29 نومبر کا دِن چیئر اُسکے دوست ، اور دنیا بھر کے جانوروں کے تحفظ کرنے والے اکٹوسٹوں کیلئے ایک مسرت کا نوید لے کر آیاجب وزیراعظم عمران خان کے تعاون سے کاوان ہاتھی کو ایک روسی طیارے کے ذریعہ اسلام آباد سے کمبوڈیا کے ایک ایسے جنگل میں پہنچا دیا گیاجہاں جانور خانہ کے عمر دراز جانور پناہ گزیں ہوتے ہیں۔ کا وان کے ہوائی سفر کی نگرانی با نفس نفیس چیئر خود کرتی رہی، اِس مقصد کے حصول کیلئے وہ بذات خود اسلام آباد گئی تھی اور وہاں وہ وزیراعظم عمران خان سے ملا قات کرکے اُنہیں کاوان ہاتھی کے مستقبل کی زندگی کے بارے میں بریف کیا تھا، کاوان کو طیارے پر سوار کرنے سے قبل خصوصا” اُسکے لئے بنائے ہوئے ایک پنجرے میں بند کیا گیا تھا، اُسے پنجرے تک لانے کیلئے مہاوت نے ہفتوں تربیت دی تھی۔ چیئر نے کاوان کو اپنا دوست بنانے کیلئے موسیقی کا سہارا لیا تھا، وہ اُسے فرینک سناترا کے نغموں کو بھی سناتی تھی، کاوان کو ہوائی سفر کے دوران کھانے کیلئے 500 پونڈ کے لذیذ کھانوں کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ اسلام آباد سے کمبوڈیا تک دس گھنٹے کے سفر کے دوران کاوان آرام اور سوتے ہوے گذارا تھا، کمبوڈیا کے جنگل میں کاوان کی دل بستگی کیلئے سات مادہ ہاتھی موجود ہیں، کاوان وہاں پہنچتے ہی ہائے ہوائے کا آغاز کر دیا ہے،اسلام آباد کا جانور خانہ جو امروز فردا میں مکمل بند ہونے والا ہے پاکستانی قوم کی نااہلیت ، اُن کی ذہن کی پستی ، حرص اور گھناﺅنی مفاد پرستی کا پردہ چاک کرتا ہے۔ اِسی سال جولائی کے ماہ میں دو شیر آتش زنی کی واردات جو اُنکے اِنکلوزر میں لگ گئی تھی سے ہلاک ہوگئے تھے، جانور خانہ سے چوری ہونے والے جانوروں کی تعداد تقریبا”ایک ہزار اور ہلاک ہونے والے جانور200 کے قریب ہیں،غائب ہونے والے بے شمار جانور اِس شک وشبہ کو جنم دے رہے ہیں کہ اعلی ٰحکام اُنہیں اپنے گھر لے گئے ہیں، چڑیا گھر کا بند ہونا بذات خود اِس بات کی دلیل ہے کہ ہم پاکستانی ایک نااہل قوم ہیں اور ایک چڑیا گھر کو بھی نہیں چلا سکتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here