شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن
اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہئیے یا نہیں؟ تحمل سے کام لینا چاہیے‘ تعجیل سے نہیں۔ انتظار ہی بعض اوقات بہترین حکمت عملی ہوتی ہے‘ اس کے لیے مگر صبر درکار ہوتا ہے۔ ان الجھنوں کو سلجھانے کی بجائے، وہ خیرہ کن ترقیاتی منصوبوں کی نوید سنانے میں لگے رہتے ہیں، جن پر عمل درآمد کی نوبت کم آتی ہے۔ قوموں کی اقتصادی، سیاسی اور سفارتی ترجیحات اب خود اقوام طے کرتی ہیں، لیڈر لوگ نہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ قوم کو کرنا چاہئیے یا فقط اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی چند جید شخصیات کو؟اس پہ ریفرنڈم برپا ہوناچاہئیے یا قومی اسمبلی میں بحث۔ ایک نظریاتی ریاست کی بنیادی ترجیحات کے بارے میں کوئی فیصلہ بند کمرے میں کیسے ہو سکتاہے۔آئین کی تشکیل اور تحریکِ ختم نبوت کی طرح یہ فیصلہ بھی قوم کرے گی۔ واٹر گیٹ سکینڈل میں صدر نکسن اس طرح الجھے، جس طرح کوئی پرندہ جال میں۔ ایک ممتاز ہم عصر سیاسی مدبر سے انہوں نے پوچھا کہ کیا عافیت کا کوئی راستہ باقی ہے؟جواب یہ تھا: ایک نہیں، کئی راستے اور آخری قرینہ خاموشی ہے۔ عافیت کس چیز میں ہوتی ہے؟ یہ سوال بغداد کے صوفی سے پوچھا گیا تو اس نے یہ کہا تھا: عافیت گمنامی میں ہوتی ہے‘ گمنامی نہ ہو تو تنہائی میں‘ تنہائی نہ ہو تو خاموشی میں‘ اور خاموشی نہ ہو تو صحبتِ سعید میں۔ رحمتہ للعالمین? کا ایک فرمان یہ ہے: میری امّت کے بہترین لوگ وہ ہیں، جو کسی محفل میں جائیں تو ان کا تعارف نہ کرایا جائے اور جب وہ اٹھ کر چلے جائیں تو ان کا ذکر نہ ہو۔ یہ مگر مستثنیات ہیں۔ خال خال، النّادر کالمعدوم۔ لاہور کے بانساں والا بازار کی مسجد میں مولوی محمد شریف ذکر و فکر میں محو رہتے یا عبادت میں مصروف۔ کوئی ان سے ملنے جاتا تو شاد ہوتے اور مہمانوں کو شاد رکھتے، وگرنہ تنہائی میں آسودہ۔ آدمی شہرت، ناموری، نمود اور غلبے کا آرزومند ہوتا ہے۔ چالیس برس ہوتے ہیں، گورنمنٹ کالج لاہور کا فارغ التحصیل، ایک سرخ و سفید نوجوان شام کو باغِ جناح میں ٹہلا کرتا۔ ہر وقت کچھ کر گزرنے کی دھن اس پہ سوار رہتی۔ مسلسل ایک ہی بات کیا کرتا ”اگر مجھے اقتدار مل جائے، اگر مجھے موقع ملے“ کیسے کیسے سنہرے سپنے وہ دیکھتا۔ ایک کامیاب آدمی مگر اس کے باوجود مضطرب‘ اس آدمی کا نام محمد نواز شریف ہے۔ مواقع کی ارزانی تب اسے عطا ہوئی، جب گرامی قدر والد کے مشورے بلکہ حکم پر اس نے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، بلکہ پوری طرح تو برسوں بعد‘ جب وہ ایوان اقتدار میں داخل ہوا۔ روایت یہ ہے: آزردہ اور دل گرفتہ ایک سرکاری دفتر سے باہر نکلتے ہوئے، میاں محمد شریف نے یہ کہا تھا: ہم سے تو یہ سیاستدان ہی اچھے۔ خاندان کا کاروبار قومیا لیا گیا تھا۔ منتقم مزاج سیاسی مدبّر ذوالفقار علی بھٹو کوس لمن الملک بجاتے تھے۔ اپوزیشن لیڈر ہی نہیں، مخالف سیاسی کارکن ہی نہیں، کتنے ہی بے شمار دوسرے لوگ تھے، جن کی زندگیاں اس شخص نے ویران کر دیں۔ تاجر، صنعت کار، بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کو چلانے والے تر دماغ۔ ان میں سے بعض بیرونِ ملک چلے گئے۔ بے بسی کے احساس میں مبتلا ان لوگوں میں سے بعض نے 1977ءمیں انتقام لیا اور کچھ نے بعد میں موقع پایا۔ نواز شریف کا خاندان ان میں سے ایک تھا۔ اب ایک اور ہدف ان کے سامنے ہے۔ ملک کے فوجی حکمران جنرل محمد ضیاءالحق کو ناراض لوگوں کی ضرورت تھی، جو سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے ہاتھوں ستائے گئے ہوں۔ حبّ ِعلی نہیں، فرسودہ معاشروں کی سیاست کا انداز بغضِ معاویہ پہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جواں سال محمد نواز شریف بھٹو خاندان کا قرض چکانے کے آرزومند تھے۔ تعجب نہیں کہ انہوں نے تحریکِ استقلال کا انتخاب کیا۔دیانت داری اور حسنِ انتظام کی شہرت رکھنے والا ایک عسکری ہیرو، پاک فضائیہ کی تعمیر میں جس کا کردار سب سے زیادہ اہم تھا۔ اصغر خان کی ظاہری شخصیت نہایت پ?رکشش اور بارعب تھی۔ بعد میں گو اندازہ ہوا کہ وہ اتنے ہی بڑے سیاستدان ہیں، جتنے کہ عمران خان۔ فرق یہ ہے کہ وہ جلد مایوس ہونے اور روٹھ جانے والے آدمی تھے، ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے نہیں۔ نوجوان نواز شریف نے اصغر خان کی پارٹی کا انتخاب کیوں کیا؟ اس لیے کہ وہ بھٹو کے سب سے بڑے مخالف تھے۔ جیسا کہ بعد میں لکھی گئی، ان کی کتب سے بھی واضح ہے، وہ انہیں ایک مکار آدمی سمجھتے تھے۔ جھوٹا، شعبدے باز اور فریب کار۔ مقبول لیڈر کے محاسن پہ خان صاحب نے کبھی نظر نہ کی۔ 1977ءکی احتجاجی تحریک کے ہنگام انہوں نے یہ کہا تھا ”میں اسے کوہالہ کے پل پر پھانسی دوں گا“ 36 برس بعد میاں شہباز شریف نے لاہور میں بار بار اعلان کیا کہ وہ آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ خدا کی زمین پر کبھی کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا، کچھ کر دکھانے کا جو آرزومند نہ ہو مگر بعض میں تڑپ زیادہ ہوتی ہے۔ اس جواں سال میں زیادہ تھی۔ گھریلو پابندیاں اور گورنمنٹ کالج کے مہ و سال میں پیش آنے و الے واقعات، جن کی وضاحت ایک مفصل خاکے میں ہی ممکن ہے۔ دولت سے محبت اسے ورثے میں ملی اور دوسروں کو برتنے کا سلیقہ بھی۔ آئے دن کسی سرکاری افسر کو لبھانے کی ذمہ داری؛ چنانچہ ایک احساس کی بے پایاں شدّت اس میں کارفرما ہوئی کہ جس طرح بھی ممکن ہو، اقتدار حاصل کرنا چاہیے، اقتدار۔ گمان یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ہی ان کا رول ماڈل تھے اور انتقام ہی جذبہءمحرکہ۔ قرآنِ مجید جسے ”طولِ امل“ قرار دیتا ہے، ماہرینِ نفسیات اسے جبلّتوں کی حکمرانی کہتے ہیں۔ کتاب یہ کہتی ہے کہ غور و فکر سے کام لو اور قدرت کے قوانین کو سمجھنے کی کوشش کرو۔
٭٭٭