کرتار پور راہداری اور پاکستان!!!

0
150

 

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا کی وجہ سے بند عبادت گاہیں کھل رہی ہیں اس لیے کرتارپور راہداری کو بھی کھول کر بھارت کے سکھ یاتریوں کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی کی تقریبات میں شامل ہونے کا موقع دیا جارہا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے کورونا وبا اور دیگر مسائل کی اڑچن ڈال کر اپنی جانب راہداری کھولنے سے انکار کردیا ہے۔ انگریزعہد سے قبل پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی کی تین روزہ تقریبات گوردوارہ شری ڈیرہ صاحب لاہور میں بھارتی پنجاب سے آنے والے یاتریوں کے بغیر شروع ہو چکی ہیں۔ سکھ مت کے پیروکاروں اور پاکستان میں گوردوارہ پر بندھک کمیٹی نے بھارتی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیاہے۔ بھارت کے ڈیرہ بابا نانک سے سکھ مت کے بانی بابا گورو نانک کی آخری آرام گاہ کرتار پور تک چار کلومیٹر کی راہداری دونوں ملکوں میں کشیدہ تعلقات میں کمی کے لیے اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ پاکستان کو اس راہداری کی افادیت کا ادراک ہے اسی لیے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے خطے میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام اور بدامنی کے انسداد کے پیش نظر ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات خوشگوار بنانے کے لیے متعدد اقدامات کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے حلف اٹھاتے ہی اس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھی ہمسائیگی پر مشتمل تعلقات ہونا چاہئیں۔ موجودہ پاکستانی قیادت نے بھارتی قیادت کو پیشکش کی کہ دوطرفہ تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین بنیادی تنازع کشمیر ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کا موقف ان اصولوں کے عین مطابق ہے جن سے اقوام متحدہ اتفاق کرتی ہے۔ کشمیر اس لیے متنازعہ ہے کہ بھارت نے اس کے باشندوں کی مرضی کے خلاف گزشتہ 72 سال سے قبضہ کر رکھا ہے۔ کشمیر اس لیے بھی متنازع چلا آرہا ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جن قراردادوں پر عملدرآمد کا پوری دنیا کے سامنے وعدہ کر کے پاکستان اور کشمیری مجاہدین سے جنگ بندی کی درخواست کرتا رہا ہے اسی تنازع کی وجہ سے باہمی تجارت اور عوامی رابطے متاثر ہورہے ہیں۔ یہ ساری صورتحال اس وقت ایک سنگین شکل اختیار کرتی نظر آتی ہے جب بھارت ہر قسم کے مسئلے پر پاکستان سے بات چیت ممنوع قرار دے دیتا ہے۔ دربار صاحب کرتار پور دنیا بھر کے سکھوں کی عقیدت کا مرکز ہے۔ عشروں سے بھارت میں مقیم سکھ کرتارپور سے ملحق بھارتی سرحد پر کھڑے ہو کر دربار صاحب کی زیارت کرتے رہے اور حاضری کے لیے بے تاب رہے۔ پاکستان کی طرف سے کرتار پور راہداری کی تعمیر سے کینیڈا‘ برطانیہ‘ امریکہ اور یورپ کی سکھ برادری کے ساتھ ساتھ بھارتی سکھوں میں بھی پاکستان کے لیے خیرسگالی کے جذبات پیدا ہوئے۔ بھارت کی حکومت ایسے انتہا پسندوں کے ہاتھ میں ہے جو ہندو توا کے غلبے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ نریندر مودی اور ان کے تشدد پسند ساتھی بھارت میں ہندوﺅں کے سوا کسی عقیدے اور برادری کا احترام کرنے ا ور ان کو برابر حقوق دینے کے مخالف ہیں۔ سکھ آبادی میں پاکستان اور پاکستانی قیادت کے لیے ممنونیت کو غداری قرار دے کر وہ راستے بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو سکھ یاتریوں کو پاکستان میں اپنے مقدس مقامات تک آسان رسائی دیتے ہیں۔ دربار صاحب کرتار پور اور ڈیرہ بابا کے درمیان چند ماہ میں تعمیر کی گئی راہداری کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے آزادی کے بعد پہلی بار سکھ یاتریوں کو موقع ملا کہ وہ واہگہ کے ذریعے لاہور آنے اور پھر نارووال سے ہوتے ہوئے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کرنے کی بجائے چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے دربار صاحب پر حاضری دے سکیں۔ بھارتی حکومت اس مختصر فاصلے کو ایک بار پھر سینکڑوں کلومیٹر کے سفر میں بدلنا چاہتی ہے تاکہ خطے میں پرامن عوامی رابطے فعال نہ ہو سکیں۔ کرتار پور راہداری سکھ مت کے پیروکاروں کے لیے مقدس دربار صاحب تک پہنچنے کا وسیلہ ہے لیکن اس کی ایک اہمیت پاکستان اور بھارت کو اس بات کا موقع فراہم کرنے کے حوالے سے ہے کہ دونوں ملک اپنے تنازعات کو حل کرنے کے لیے اس سازگار فضا سے فائدہ اٹھائیں۔ یقینا ریاستوں کے پاس ایسے مواقع پیدا کرنے کی بہت گنجائش ہوتی ہے جن سے کشیدہ تعلقات کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے لیکن ایک ریاست کا مسلسل امن مذاکرات سے انکار کسی بھی وقت ایک بڑے بحران کا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی صلاحیت کی حامل ریاستیں ہیں۔ دونوں ہمسایہ ہیں اس لیے انہیں اسی حیثیت کے ساتھ رہنا ہے۔ بھارت کچھ عرصہ سے علاقائی طاقت بننے کے خبط میں مبتلا ہے۔ یہ خبط اسے کبھی نیپال سے جھگڑاکرنے کو اکساتا ہے کبھی سری لنکا سے سینگ ٹکراتا ہے۔ چین کے ساتھ حالیہ جھڑپوں میں بھارت کے درجنوں فوجی مارے گئے۔ چینی افواج نے پوری وادی گلوان پر اپنا دعویٰ کیا ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان کی طرف سے فروغ امن کی کوششوں پر بھارتی طرز عمل انتہائی مایوس کن ہے۔ کرتار پور راہداری کھولنے کے لیے ضابطوں کی پابندی کے نام پر بھارت نے جس قسم کا طرز عمل اختیار کیا ہے اسے قطعاً دانشمندانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here