کورونا سے واپسی اور شرارتوں کا تسلسل!!!

0
115
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

قارئین کچھ غیر حاضری کے بعد خادم دوبارہ کالم ہذا کے ذریعے حاضری ڈال رہا ہے۔ کورونا میں کچھ کفن دفن کی مصروفیات رہیں۔ رمضان میں کچھ زیادہ ہی مصروف رہے، آدھی خدمت زندوں کی اور آدھی مرحومین کی ۔ درس خارج فقہ و اصول بھی شروع کر دیا ہے دروس قرآن و فقہ و اخلاق و نہج البلاغہ و دروس حوزہ چل ہی رہے ہیں۔ مجالس و محافل آن لائن جاری ہیں۔ جمعہ بھی شروع ہو چکا۔ نکاح بھی شروع ہوگئے۔ خدمت شہر خاموشاں جاری ہی ہے اسکے باوجود اب ٹھان لی ہے کہ ہر پیر کو یہ آرٹیکل لکھا جائیگا، سابقہ غیر حاضری کی معافی دے دیں ،اللہ کریم آپ سب کو سلامت رکھے،چیف ایڈیٹر اور اپنے پاکستان کے آفس سے بھی معذرت خواہ ہوں ۔
آج کالم لکھنے کیلئے فون پکڑا ہی تھا کہ کسی بہت ہی محترم شخص کی اوورسیز سے کال آگئی۔ میں نے کال کی وجہ دریافت کی تو بولے آج کل آپ کے کالم ہمارے ملک میں نہیں چھپ رہے۔ میں نے کہا کچھ عرصہ سے کورونا ملعونہ نے ہوش اڑا ئے رکھے ہیں۔ فرمانے لگے کہ سوشل میڈیا پر بھی نہیں آرہے، میں نے کہا کوشش کرینگے لکھنے کی ،مجھے خود بھی احساس ہوا کہ کالم لکھنا چھوڑنا باکل درست نہیں ہے۔ اللہ ہمت دے
بسم اللہ آج ایک عجیب و غریب میسج اور پھر کال کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں!
میسیج
جناب ڈاکٹر صاحب سلام اور خیریت مطلوب
میں آپ کے ملک کا ایک بد قسمت باپ ہوں جسے اللہ نے بہت بیٹے دیئے مگر سارے ہی مطلبی، وقت سے پہلے امیر بننے کے خوابوں نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ اگر میری یہ گزارشات آپ اپنے کالم میں شائع کر سکیں تو مہربانی ہوگی نہیں تو دعا کر دینا۔ ابھی جون کی بات ہے میرے چھوٹے بیٹے کو کورونا ہو گیا، ہسپتال والوں نے اسے مردہ کہہ دیا ،سانس اسکی بحال نہیں ہورہی تھی، اللہ نے شفا دے دی، میری بیوی مر چکی ہیں وہ اس نالائق پر ناراض تھیں۔آپ کو پتہ ہے ہمارے ہاں مشترکہ رہنے کا رواج ہے، اسکی بیوی بہت اچھی ہے ،اسے اللہ نے بیٹوں اور بیٹیوں سے بھی نوازا ہے۔ ایک تو کام چور کورونا سے پہلے بھی یہ مانگ کر گزارا کرتا تھا اور اب بھی یہی پیشہ ہے۔ اسکی برُی عادت یہ ہے کہ ہر وقت فون پر لگا رہتا ہے یا میسیجنگ کر رہا ہے یا کسی سے لڑ رہا ہے یا کسی سے گالیاں کھا رہا ہے یا دے رہا ہے۔محلے والے اس سے تنگ آگئے ہیں، ساری رات جاگتا ہے، سارا دن سوتا ہے، میں نے سوچا تھا ،اتنے بڑے امتحان کے بعد انسان بن جائیگا ،سات سات دن نہاتا نہیں ہے،تمباکونوشی کرتا ہے، بدبو کا مرکز بنا ہے۔ سوتا ایسے ہے جیسے مر گیا ہو۔ واحیاتوں سے اسکی عجیب دوستیاں ہیں ،اسکے کئی دوست ہمارے گھر کے دروازے پر آئے اور میری کئی بار بے عزتی کر گئے۔ نہ اسے بچوں کی تعلیم کی فکر ہے نہ مستقبل کی، کیسے نظام چلے گا ؟ پیسے کہاں سے آئینگے،بھلا ہو حکومت کا اس نے علاج کا کچھ نہیں لیا ہے۔اب یہ کہتا پھرتا ہے کہ مجھے تو جو ہونا تھا وہ ہوگیا اب پلازمہ بیچ کر عیش کرونگا اور اب تو دشمنوں کو اور ستاو¿ں گا، ڈاکٹر جی نہ قرآن پڑھتا ہے نہ نماز، جائے نماز کمرے میں پڑی ہے، بس اسکی بدبو کے باعث بیوی بچے اسکے قریب نہیں بھٹکتے،محلے میں مجھے تماشا بنا دیا ہے۔
ہر روز ایک پارٹی آتی ہے کہتی ہے ہمارا اتنا ادھار دینا ہے اور یہ ہے وہ ہے،آپ اندازہ لگائیں یہ وہ مریض ہے جو موت کے منہ سے واپس آکر بھی نصیحت حاصل نہیں کر رہا ہے ،ڈاکٹر صاحب کیا امریکہ میں بھی ایسے بدبخت ہیں جو کورونا ہونے کے بعد بھی انسان نہ بنیں،میں نے جواب لکھنا شروع ہی کیا تھا کہ مجھے ایک شخص کی کال آگئی جسکی مصیبت اس سے بھی بڑی تھی جاری ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here