دوہری شہریت معاملہ قانون سازی کا منتظر

0
134
مجیب ایس لودھی

 

مجیب ایس لودھی، نیویارک

وفاقی کابینہ نے اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستانی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔کابینہ نے اختلاف رائے کے باوجود ایک آئینی ترمیمی بل کی منظوری دی،جس کے مطابق دوہری شہریت کے حامل پاکستانی ملک کے عام انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔ یہ آئینی ترمیمی بل قواعد کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دوتہائی اکثریت سے منظور کرانا ہو گا،اس کے بعد ہی اجازت ہو گی جبکہ مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے اوورسیز پاکستانیوں کو مبارکباد دی ہے کہ ان کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق مل گیا ہے اور وزیراعظم نے وعدہ پورا کر دیا۔اس وقت تک دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں پر غیر ملکی شہریت ترک کئے بغیر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں،اس کےلئے غیر ملکی شہریت پہلے ترک کرنا ہوتی ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے جبکہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی مثال سامنے ہے کہ انہوں نے برطانوی شہریت پہلے چھوڑی تھی۔ وفاقی وزیر فیصل واو¿ڈا کے خلاف الیکشن کمشن میں دوہری شہریت کے حوالے سے عذر داری بھی زیر سماعت ہے۔ اب وزیراعظم کی خواہش پر یہ ترمیمی بل تیار کیا گیا،اس کے مطابق دوہری شہریت کے حامل پاکستانی شہریت رکھتے ہوئے انتخاب میں حصہ لے سکیں گے اور جیتنے کی صورت میں ان کو غیر ملکی شہریت چھوڑنا ہو گی۔ اگر ہار جاتے ہیں تو پھر غیر ملکی شہریت چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ وہ بدستور دوہری شہریت کے حامل رہیں گے۔یہ بڑی رعایت ہے جو کابینہ میں منظور ہوئی،بعض وزرا نے مخالفت بھی کی۔ بہرحال فیصلہ تو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی دوتہائی اکثریت سے ہونا ہے ،اِس لئے اوورسیز پاکستانیوں کو مبارک باد دینے سے قبل حزبِ اختلاف سے تعاون کےلئے رابطہ کر کے منظوری کی راہ ہموار کرنا بہتر عمل ہو گا۔
پاکستان میں دوہری شہریت کا معاملہ گاہے بگاہے ا±ٹھتا رہتا ہے۔ اس اہم معاملے پر سیاسی نمبر سکورنگ تو کی جاتی ہے مگر قانون سازی کرکے یہ معاملہ مستقل بنیادوں پر حل نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل نمبر 63 ون کے مطابق کوئی ایسا شخص سینٹ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہیں ہوتا جو دوہری شہریت کا حامل ہو۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے 2013ءمیں ایسے 11 اراکین قومی اسمبلی کو نااہل قرار دیدیا تھا جن کے پاس دوہری شہریت تھی یعنی وہ پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کے شہری بھی تھے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب موجودہ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن لیڈر تھے اور دوہری شہریت پر جائز تنقید کرکے عوام کے دلوں کو گرمایا کرتے تھے۔ 2013ءمیں پاکستان کی سینٹ نے ایک بل منظور کیا تھا جس میں یہ قرار پایا تھا کہ 20 گریڈ سے 22 تک کوئی افسر دوہری شہریت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ یہ بل ابھی تک قومی اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا لہٰذا یہ قانون نہیں بن سکا۔ اس سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی غفلت بے حسی اور حب الوطنی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ہمارے سیاستدان قومی مسائل کو حل کرنے کی بجائے ان کو التوا میں ڈال دیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان میرے خیال میں بدقسمتی سے اپنی وہ اخلاقی شناخت قائم نہ رکھ سکے جس کی بنا پر پاکستان کے عوام نے ان کو باقی دو قومی جماعتوں کے لیڈروں سے مختلف سمجھا اور ان سے توقع وابستہ کرلیں کہ جب وہ اقتدار میں آئینگے تو عوامی یقین دہانیوں پر پورا عمل کرینگے۔ ان کو اب اپوزیشن جماعتیں ”یوٹرن خان“ کے طعنے دیتی رہتی ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کچھ ایسے افراد کو اپنی کابینہ میں مشیر کے طور پر شامل کیا جن کے پاس دوہری شہریت تھی۔ کابینہ میں شامل منتخب اور غیر منتخب اراکین میں جب کشمکش بڑھی تو منتخب وزراءنے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ کابینہ میں شامل غیر منتخب معاونین اور مشیران اپنے اثاثوں کا اعلان کریں اور دوہری شہریت کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لیں۔ عمران خان کی شاید یہ خواہش ہو کہ ان کی حکومت کو تاریخ کی شفاف حکومت کے طور پر یاد کیا جائے لہٰذا وہ ایسے اقدامات ا±ٹھاتے رہتے ہیں جو پہلے کبھی نہیں ا±ٹھائے گئے اور انکی وجہ سے خود عمران خان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اپوزیشن کو ان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔غیر منتخب مشیروں کے اعلان کے مطابق 19 میں سے چار مشیر دوہری شہریت کے حامل ہیں جبکہ تین مشیر مختلف ملکوں کے مستقل رہائشی ہونے کا سٹیٹس رکھتے ہیں۔ پٹرولیم کے مشیر ندیم بابر امریکہ کے شہری ہیں اوورسیز کے مشیر زلفی بخاری برطانیہ کے شہری ہیں۔ ڈیجیٹل پاکستان کی مشیر مس تانیہ کینیڈا اور سنگاپور کی شہری ہیں۔ پاور ڈویژن کے مشیر شہزاد قاسم امریکہ کی شہریت رکھتے ہیں۔ سیاسی امور کے مشیر شہباز گل امریکہ کے گرین کارڈ ہولڈر ہیں۔ اپوزیشن کی جماعتیں اگر سنجیدہ ہیں تو وہ سیاسی نمبر سکورنگ کی بجائے پارلیمنٹ میں بل پیش کر کے دوہری شہریت کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل کر دیں یہی آئینی جمہوری اور اخلاقی راستہ ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here