کامل احمر
کتابیں ہمیں شعور دیتی ہیں، لکھاری اور شاعر کائنات کی تصاویر اور انسانی جذبات کی عکاسی کرتا ہے جس قوم کو تباہ کرنا ہو اسکا شعور چھین لو۔اس کا ذکر قرآن پاک کی آیت سورہ بکرا میں بھی ہے۔بغداد(آج کا عراق)جو علم اور شعور کا ممبا تھا جس نے”الف لیلیٰ ہزار داستان“ کو جنم دیا تھا اور اس میں شامل فرضی کردار ہماری اور آپ کی زندگیوں میں جا بجا ملیں گے۔کومنگول حکومت کے بادشاہ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے توسیع حکومت کی خاطر لوگوں کی ذہنی صلاحیتوں کو ختم کرنے کے لئے کو آگ لگا کر زمین بوس کر دیا تھا نہ رہے بانس اور نہ بچے بانسری کے قول پر عمل کرکے بغداد کو نیست ونابود کرنے کی ٹھانی تھی۔یہ بات1258کی ہے اسکے بعد چینیوں نے1388میں انکو دربدر کردیا اور انکی بادشاہت کو1390میں ختم کردیا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر ظالم اور سفاک کے لئے اس سے بڑا سفاک پیدا کیا گیا ہے حکومتیں بنتی ہیں اور بدلتی ہیں ملک تقسیم ہوتے ہیں امریکہ، برطانیہ، اور اب چین ساری بڑی طاقتوں کے ذہنوں پر سوار ہے اور ہم جو اسلام کے نام پر بنے پاکستان کے عوام ہیں کہاں کھڑے ہیں اور کہیں پستی میں گھر گئے ہیں اس کا جواب بھی یا وجہ بھی۔تیرہویں صدی کے عظیم مفکر، دانشور، معلم، شاعر مولانا جلال الدین، رومی نے دے دیا تھا، اپنے علم، مشاہدے اور تجربے سے۔
”ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہونے پر ہے
طاقت، اقدار، دولت، بھوک، لالچ، محبت اور نفرت“
اسکی حکایت میں وہ ساری چیزیں آجاتی ہیں جس کا عملی مظاہرہ ہر جگہ ہو رہا ہے۔بالخصوص پاکستان میں، لوگوں سے شعور چھین لو۔ہلاکو خان کے بعد یہ ہی کام امریکہ نے عراق پر کارپیٹ بمباری کرکے کیا تھا کہ وہاں کی لائبریریاں، تاریخی عمارتیں، تعلیم گاہیں زمین بوس ہوگئی تھیں۔اسلامی ممالک میں بادشاہوں کے ذریعے سے یہ کام آج بھی جاری ہے۔
پاکستان جب وجود میں آیا تو عوام نے بے حد قربانیاں دیں،جان کی قربانیاں ہندوستان سے لاہور آتے ہوئے امرتسر میں دلدوز واقعات نے جنم لیا۔سعادت منٹو کا صرف ایک افسانہ”کھول دو“ ہی کافی ہے۔وہ لوگ جو ہندوستان میں حویلیوں کے مالک تھے آم کے باغات انکی تحویل میں تھے۔بڑے عہدوں پر تھے۔شان وشوکت کی زندگی گزارتے تھے اور ہندو بنیاءانکا ماتحت تھا۔خود میرے والد جو ریلوے میں اسٹیشن ماسٹر تھے۔پاکستان کی محبت میں سب کچھ چھوڑ کر اور خونی رشتوں کو کاٹ کر پاکستان آکر خدمت میں لگ گئے اور آج ان کی اولادیں طاقتور حکمرانوں کو کھلنی ہیں جنہوں نے ان جاہلوں کو شعور دیا۔وہ کراچی آکر آباد ہوئے اور برطانیہ کے بنائے سب سے بڑے عالیشان شہر کو چلایا۔اسی شان سے جس شان سے برطانیہ نے چلایا تھا۔ریلوے، بسیں، کورٹ کچہری، حفاظتی پولیس، ایوب خان تک کراچی میں تبدیلی(بہتر)آتی رہی۔سرکلر ریلوے ان ہی کے دور کی یادگار ناجائز تجاویزات کے نیچے دفن ہے۔ٹرام ختم کر دی گئی بجائے بڑھانے کے ایوب خان کے بعد ایک کے بعد ایک ہلاکو خان آتا رہااور سب کے سب پاکستان اور بالخصوص کراچی کو تباہ کرتے گئے لوٹتے رہے اور صوفی مشاعر رومی کی شاعری اور قولوں کا منہ چڑاتے رہے حتیٰ کہ کراچی شہر پچھلے کئی ہفتوں سے ڈوب رہا ہے اور حکومت کے کرتا دھرتا بے شعور لالچی، طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں کو شرم نہیں آتی۔
شہر کو آگ لگا کر زمین بوس کرو یا دوسرے ہتھیاروں سے جن میں تعصب ا ور اقربا پرسی کے زہر سے اور اب یہ زہر جس کا ذکر مولانا رومی نے دوسری خصلتوں کے ساتھ نہیں کیا کیونکہ انکے زمانے میں شاید یہ باتیں نہیں تھیںلیکن یہ حوس پرستی کے زمرے میں آتی ہیں۔ورنہ سلیم باجوہ کو احمد نورانی کے لگائے الزامات کی صفائی میں کہنے کی ضرورت نہ ہوتی۔تو اب نوازشریف اور فوج کے جنرل میں کیا فرق رہ گیا کوئی ہمیں سمجھائے۔
کراچی میں بارش نے تباہی مچا دی، باجوہ صاحب ہیلی کاپٹر سے نظارہ کرکے چلے گئے۔عمران خان چھ دن کے بعد11سو ارب روپے کا پیکیج لے کر آئے اور ان ہی چوروں کے ساتھ پریس کانفرنس کرکے چلے گئے۔میڈیا کا پیٹ بھر کے سندھ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان نعاظی ہو رہی ہے اور مرتضیٰ وہاب ایسا بے علم بے شعور غلامانہ ذہنیت کا بچہ جمہورہ کہتا ہے749ارب روپے سندھ کا شیر ہے اس سے کیا مطلب ہے صاف ظاہر ہے کہ کراچی کی حالت نہیں بدلے گی اور ایسا جان کرکے ایک منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے۔
پچھلے47سال سے کراچی کے پڑھے لکھے عوام کا شعور چھینا جارہا ہے یہ کام بھٹو نے کیا تھا اور باجوہ عمران مل کر کر رہے ہیں وہ سندھ کی بدعنوان(حد سے زیادہ)حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے یہ بھی ٹوپی ڈرامہ ہے اگر رینجرز مہاجروں کی اولادوں کو ٹھکانے لگا سکتی ہے۔ایک ہفتے میں تو وہ کیا وجہ ہے کراچی کے حالات کو درست نہیں کرسکتی اور اگر انکا عمل دخل نہیں تو ہم کہیں گے بیان بازی نہ کیا کریں۔بیان ملاحظہ ہوں“اب امن کو خوش حالی میں بدلنے کے لئے مل کر جدوجہد کرنا ہوگی(سوال یہ کہ کہیں کس کو ملا کر)انہوں نے کہا“کرونا اور ٹڈی دل جیسی آفتوں کا بھی کامیابی سے مقابلہ کیا۔(ٹڈی دل کا صفایا ایوب خان نے دو دن میں کیاتھا)اور کرونا عوام کی مضبوط قوت دماغ (خراب پانی اور خراب خوراک کھا کر صحت مند رہنا) کا نتیجہ ہے۔جو مغرب میں نہیں جیسے ہمIMMUNE SYSTEMکہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے تین سال میں کراچی بدل جائیگا۔یقین کر لیں کم ازکم کراچی میں ایسا نہیں ہوگا ایسا کرنے کے لئے انہیں ناجائز کوٹہ سسٹم متروکہ سندھ کی بازیابی مقامی آبادی کی معاشی اور تعلیمی تلفی، غیر مقامی تمام ملازمتوں پر قابض لوگ غیر مقامی رشوت خور پولیس رجسٹرار آفس ڈی سی افراد کی صفائی اور جانچ پڑتال سب سے اہم یہ کہ مولانا رومی کے دیئے ہوئے نسخہ پر غور وفکر کی ضرورت ہے ناامیدی کفر ہے لیکن اقبال کہتا ہے”عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی اور ہم کہتے ہیں پاکستان میں ہر جگہ بیٹھے ہلاکو خانوں کو ختم ہونا ہوگا جو شعور کے علاوہ سب کچھ چھین چکے ہیں۔