سندھ کی اہم جامعات اور بورڈز میں کروڑوں کی بے ضابطگیاں

0
704

کراچی:

سندھ کی اہم جامعات اور بورڈز میں کروڑوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

سندھ اسمبلی میں جمع کرائی گئی آڈیٹر جنرل کی رپورٹ بعنوان ’ آڈٹ رپورٹ آن دا اکاؤنٹس آف گورنمنٹ آف سندھ آڈٹ ایئر 2017-18‘ میں آڈیٹر جنرل نے انکشاف کیا ہے کہ این ای ڈی یونی ورسٹی آف انجنیئرنگ کراچی مقررہ وقت میں ڈاکٹریٹ ( پی ایچ ڈی) کی ڈگریاں مکمل کرانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے حکومت کو 62.3 ملین روپے کا نقصان ہوا۔

این ای ڈی کے وائس چانسلر کے دفتر کے آڈٹ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یونیورسٹی نے 8 اسسٹنٹ پروفیسرز یا ایسوسی ایٹ پروفیسرز کے لیے مختلف غیرملکی جامعات میں پی ایچ ڈی اسکالر شپس کی سفارش کی جن کی مجموعی لاگت 62.377 ملین روپے تھے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں کی تکمیل کا دورانیہ 3 سال تھا۔ 8 میں سے کوئی ایک بھی اپنی ڈگریاں مقررہ مدت میں مکمل نہیں کرسکا جس کی وجہ سے حکومت کو مالی نقصان کے ساتھ ساتھ طلبا کی تعلیم کا حرج بھی ہوا۔ ان افراد کو اسکالرشپ پر گئے ہوئے 6 برس ہوگئے ہیں اس کے باوجود انھیں ایکسٹیشن دی جارہی ہے۔

 

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق یہ بالکل غیرقانونی ہے۔ این ای ڈی یونیورسٹی کے آڈٹ کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایک ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ پروگرام کے ذیل میں پی سی ون کے تحت پی ایچ ڈی اسکالرشپس کے بجائے ماسٹر پروگرام کی اسکالرشپس کے لیے 7.831ملین روپے ادا کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق اس اقدام سے ملازمین کو وہ رعایت دی گئی جس کا وہ استحقاق نہیں رکھتے تھے۔ آڈٹ رپورٹ میں جامعہ این ای ڈی میں بھرتیوں کے طریقہ کار پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

اسسٹنٹ پروفیسر اور آئی ٹی مینیجر کے عہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان نشستوں کے لیے کمپیوٹرسائنس میں بی ای یا ماسٹرز کی سند مع 4 سالہ تجربہ درکار تھا مگر جامعہ نے 13 دوسرے اہل امیدواروں کو نظرانداز کرکے ’ غیرضروری رعایت‘ برتتے ہوئے شارق نامی شخص کا تقرر کردیا۔ رپورٹ کے مطابق پی ایچ ڈی ٹریننگ کے لیے ہر فیکلٹی ممبر کو 7 ملین روپے کا فنڈ دیا گیا۔

آڈٹ کے دوران دیکھا گیا کہ 79.845  ملین روپے ان ممالک میں اسکالرشپس کے لیے دیے گئے جو پروگرام کے پی سی ون میں شامل نہیں تھے۔ رپورٹ میں اسے بھی ملازمین کے لیے ’ غیرضروری رعایت‘ گردانا گیا ہے۔ لاڑکانہ میں واقع شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے آڈٹ کے مطابق 2015-16 میں نئی گاڑیوں کی خریداری پر 9.5 ملین روپے خرچ کیے گئے جبکہ اس وقت گاڑیاں خریدنے پر پابندی عائد تھی۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق گاڑیوں کی خریداری کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سے منظوری بھی حاصل نہیں کی گئی جو جامعات اور بورڈز کے سربراہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مختلف جامعات اور بورڈز نے شرائط و ضوابط کی عدم تکمیل کے باوجود تشہیر کی مد میں 8.18 ملین روپے کے اخراجات ظاہر کیے ہیں۔ شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی نے پروجیکٹ کا پی سی ون تیار کیے بغیر سول ورکس کی مد میں 105 ملین روپے خرچ کیے۔

آڈیٹر جنرل کے مطابق شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی میں117 ملین روپے کی لاگت سے بے نظیر انسٹیٹیوٹ آف نرسنگ اینڈ کمیونٹی ہیلتھ سائنس ( BINACHS ) اور 58 ملین کی لاگت سے امین بلاک کی تعمیر کا آغاز ہوا مگر ٹھیکیدار نے یہ منصوبے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچائے اورکام ادھورا چھوڑدیا۔ اس پر انتظامیہ نے کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی ٹھیکیدار کو بلیک لسٹ کیا گیا۔

مزید برآں سیکیورٹی ڈپازٹ ٹریژری کے بجائے بینک میں رکھوایا گیا، اور 3 ملین روپے کی سیکیورٹی ڈپازٹ کے متعلق آڈیٹر کو کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ جامشورو میں واقع لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے آڈٹ سے پتا چلا کہ یونیورسٹی کے ریگولر بجٹ میں سے 75.5 ملین روپے بلاول میڈیکل کالج کی تعمیر پر خرچ کیے گے جو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی بجٹ پالیسی کی خلاف ورزی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here