کراچی:
حکومت نے فارن کرنسی اکاؤنٹ ہولڈرز کو مارکیٹ سے خریدی گئی کرنسی اکاؤنٹس میں ڈپازٹ کروانے سے روک دیا۔
فارنس کرنسی رولز 2020 کے تحت کسی فرد کے فارن کرنسی اکاؤنٹ میں بااختیار ڈیلر، ایکسیچنج کمپنی یا منی چینجر سے خریدی گئی غیرملکی کرنسی کسی بھی قانون کے تحت اسٹیٹ بینک کی عمومی یا خصوصی اجازت کے بغیر جمع نہیں کروائی جاسکتی، تاہم بیرون ملک سے لائی گئی اور پاکستان کسٹمز سے کلیئر کی گئی کرنسی اکاؤنٹ میں ڈپازٹ کی جاسکتی ہے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ( ای سی اے پی) کے چیئرمین ملک بوستان نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسوسی ایشن نے کئی ماہ قبل وزیراعظم کو آگاہ کردیا تھا کہ جعلی تاجر افغانستان اور ایران سے تجارت کی آڑ میں یومیہ 10 سے 15 ملین ڈالر مالیت کی غیرملکی کرنسیاں اسمگل کررہے ہیں۔ بیشتر جعلی تاجر بلیک مارکیٹ سے امریکی ڈالرخریدتے ہیں۔
نئے ضوابط کے تحت اکاؤنٹ ہولڈرز کو مارکیٹ سے خریدی گئی غیرملکی کرنسی ڈپازٹ کروانے کے لیے اسٹیٹ بینک سے خصوصی یا عمومی اجازت لینی ہوگی۔ اس کے لیے انھیں کرنسی جمع کروانے کا مقصد بھی ظاہر کرنا ہوگا۔ تاہم حکومت حال ہی میں ملکی اور بیرون ملک رہنے والے پاکستانی شہریوں کو مقامی بینکوں میں فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دی تھی تاکہ وہ ان اکاؤنٹس کے ذریعے سیونگ سرٹیفکیٹس میں سرمایہ کاری کرسکیں۔
ملک بوستان کا کہنا تھا کہ سیونگ سرٹیفکیٹس میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے کا مقصد ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنا ہے۔ اگر یہ ملکی و بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانی لوکل مارکیٹ سے فارن کرنسی خرید کر سرمایہ کاری کرتے ہیں تو پھر نئے قواعد و ضوابط کی وجہ سے سیونگ سرٹیفکیٹس میں سرمایہ لگانے کا مقصد ختم ہو جائیگا۔
الفا بیٹا کور کے سی ای او خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ نئے قواعد و ضوابط سے روپے اور ڈالر کی مساوت مبادلہ بہتر ہوگی۔