Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA
امریکی تاریخ کا انتخابی معرکہ اختتام کو پہنچا کہ جس میں ڈیڑھ سو ملین یعنی کہ پندرہ کروڑ امریکی شہریوں نے ووٹ ڈالے جن کی تعداد روس کی آبادی کے برابر ہے جنہوں نے دنیا کے بد ترین اور مہلک کرونا وبا کی موجودگی میں انتخابات میں حصہ لیا، جس کی امریکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، جس کیلئے ووٹرز نے پیشگی ووٹنگ میں کئی کئی گھنٹے کھڑے ہو کر ناتواں حالات میں کئی ہفتوں تک ووٹ ڈالے جبکہ پوسٹ آفس کے ذریعے بھی ووٹ ڈالے گئے جن کی تعداد بھی کروڑوں میں پائی جاتی ہے، اگرچہ صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم کیلئے کرونا وباءکی پرواہ کئے بغیر بڑے بڑے جلسے اور جلوس نکالے جس کی بدولت آج پھر امریکہ دوبارہ کرونا وباءکا شدید شکار ہو چکا ہے جو قابو سے باہر نظر آرہا ہے جس میں صدر ٹرمپ کو 74 ملین ووٹ ملے ہیں تو دوسری طرف صدارتی امیدوار گزشتہ چالیس سال سے سینیٹر اور نائب صدر جوبائیڈن نے بھی تقریباً 80 ملین ووٹ لے کر ریکارڈ توڑ دیا ہے جس کی بدولت انہوں نے 306 الیکٹورل حاصل کئے جبکہ ٹرمپ کو 232 الیکٹورل مل پائے چونکہ نو منتخب صدر جوبائیڈن ایک مہذب اور شائستہ زبان بولنے والا شخص ہیں جنہوں نے کرونا وباءکی وجہ سے جلسے جلوسوں سے بھی اجتناب کیا، جنہوں نے سوشل میڈیا اور میڈیا پر اپنے ووٹرز کو متحرک رکھا جس کی وجہ سے انہیں پیشگی اور پوسٹ آفس ووٹنگ میں برتری حاصل رہی ہے جس میں امریکی ترقی پسندوں اور اقلیتوں کا بہت بڑا حصہ ہے جنہوں نے اپنا قومی فریضہ سمجھ کر ووٹ ڈالا جس سے جوبائیڈن پاپولر ووٹنگ اور الیکٹورل میں کامیاب ہوئے ہیں جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے کہ جوبائیڈن کو گزشتہ انتخابات کی نسبت پندرہ ملین ووٹ زیادہ ملے ہیں تاریخی امریکی انتخابات کے خاتمے کو آج چار ہفتے کو ہونے جا رہے ہیں جس میں تمام ریاستوں کے نتائج آچکے ہیں مگر صدر ٹرمپ اور ان کا نسل پرست ٹولہ انتخابات کو عدالتوں میں چیلنج کر رہاہے جس میں تمام ریاستی عدالتوں میں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اب ان کے وکلاءیو ایس اے سپریم کورٹ میں ووٹنگ میں دھاندلی اور فراڈ کا مقدمہ دائر کرنا چاہتے ہیں۔ جس کا کوئی اب تک ثبوت نہیں ملا ہے جن کا اعتراض ہے کہ ریاستی الیکشن کمیشن کے اداروں نے ارلی ووٹنگ اور میل بکس ووٹنگ کی اجازت کیوں دی ہے؟ خاص طور پر ان کی گنتی تین نومبر کے بعد کیوں کی گئی ہے ؟جو کہ ریاستوں کے اداروں کی خود مختاری پر بہت بڑا حملہ ہے جس کی وجہ سے ریاستوں کے اہلکاروں نے دوبارہ گنتی کر کے بتایا ہے کہ ہم نے قانون کے مطابق انتخابات کا انعقاد اور گنتی کی ہے جس میں کوئی فراڈ یا بے قاعدگی نظر نہیں آتی ہے مگر صدر ٹرمپ میں نہ مانوں کی پالیسی پر گامزن ہیں جس پر امریکی عوام بہت پریشان ہیں جس سے مختلف افواہیں جنم لے رہی ہیں جو امریکی نظام جمہوریت کو خطرات میں ڈال سکتا ہے۔ جس سے امریکہ اور امریکہ سے باہر تصورات پائے جا رہے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ اگر عدالتوں میں مقدمات التواءکا شکار ہوئے یا دیر ہو گئی تو بیس جنوری دوپہر ایک بجے کون امریکی صدر ہوگا جس پر امریکی قانون دانوں اور ماہرین نے بتایا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے ٹرمپ کے مقدمہ کو قابل سماعت قرار دیا اور سماعت میں دیر ہو گئی کہ جس میں بیس جنوری 2021ءکا دن آگیا تو صدر ٹرمپ اور نائب صدر اپنے اپنے عہدوں سے برخاست ہو جائینگے جس کے بعد کانگریس کا اسپیکر ملک کا صدر بن جائےگا جب تک عدالتی فیصلہ نہیں ہوگا تب تک اسپیکر ملک کا صدر بنا رہے گا، فرض کریں اگر صدر ٹرمپ کےخلاف عدالتی فیصلہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے اختیارات کا چارج نو منتخب صدر کے حوالے نہیں کرتا ہے تو بیس جنوری دوپہر ایک بجے صدر ٹرمپ صدر نہیں رہے گا جن کو نیشنل سیکیورٹی اہلکار یا یو ایس اے مارشل ٹرمپ کو وائٹ ہاﺅس سے بزور طاقت باہر نکال پھینکیں گے جن پر ٹریس پاسنگ کا بھی مقدمہ بن سکتا ہے، لہٰذا جب تک امریکی آئین موجود ہے کوئی بھی شخص بزور طاقت ملک پر قابض نہیں رہ سکتا ہے، بہر حال میں نہ مانوں گا ٹرمپ سے امریکی عوام بہت پریشان ہیں جس سے ملکی سلامتی کے معاملات کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں، کرونا وباءپر کوئی منصوبہ بندی نہیں بن پا رہی ہے صدر ٹرمپ ملکی سنجیدہ معاملات سے لاپرواہ ہو چکے ہیں جو ملک کیلئے اچھا سائن نہیں ہے، قصہ¿ مختصر صدر ٹرمپ ایک مغرور اور گمنڈی شخصیت کے مالک ہیں جن کا تکبر سر چڑھ کر بولتا ہے، جو دوسروں کو کمتر اور حقیر سمجھتا ہے جس سے امریکی عوام میں تقسیم پائی جا رہی ہے جس سے امریکہ میں نسلی امتیازی جنگ چھڑنے کے امکان پیدا ہو رہے ہیں۔
٭٭٭