بی بی سی نے اکتیس مارچ انیس سو ستانوے میں ٹم سباٹیین کا ایک پروگرام آن ایئر کیا جس کا نام ہارڈ ٹاک تھا جس میں ون آن ون انٹرویو ان اہم شخصیات سے کیے جاتے تھے جن کا امپیکٹ پڑتا ہے اور پے در پے سخت سوالات کہ جن سے جواب دہندہ سنبھلنے نہ پائے دو ہزار چھ کے بعد سے ہارڈ ٹاک سٹیفن ساک±ر سارہ مونٹیگ زینب بداوی اور شان لی کرتے آ رہے ہیں ابھی ریسینٹلی سٹیفن ساکر نے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کا فرمائشی انٹرویو کیا جو کہ الٹا پڑ گیا جس میں ان سے پراپرٹی بیماری اور ان کی اور انکے مفرور لیڈر نواز شریف کی پاکستان واپسی بارے سوالات کیے گئے۔ موصوف کی حالت دیکھنے لائق تھی انٹرویور نے بڑے واضع سوالات کیے کہ آپ اپنی پراپرٹی کی تفصیلات بتائیں ،آپ تین سال سے یہاں پر کیا کر رہے ہیں، پاکستان جا کر اپنے اوپر عائدکیسز کا سامنا کیوں نہیں کرتے وہی جو کہ ان اصحاب کا و تیرہ ہے ،سوال گندم جواب چنا اس انٹرویو کا بڑا چرچا ہے چند دن مزید سوشل میڈیا پر اسکی دھوم ہوگی پھر لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو جائیں گے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب یونہی چلتا رہے گا کیا کبھی تھرڈ ورلڈ کی حکومتیں اس بارے اجتماعی سوچ بچار کریں گی یہ سرکل کب تک چلے گا انہیں بڑے ملکوں سے قرض لیکر غریب ممالک اپنا آپ چلاتے ہیں ان غریب ملکوں کے حکمران لوٹ مار کر کے پیسہ واپس امیر ملکوں میں لیکر وہاں پراپرٹیاں خریدتے ہیں پکڑے جانے پر انہی امیر ملکوں میں فرار ہوجاتے ہیں غریب ممالک کی حکومتیں سوا ئے ہاتھ ملنے کے کچھ بھی کر نہیں پاتیں انسانی ہمدردی کی بنا پر ان لٹیروں کی حفاظت کی جاتی ہے کیا سارے حقوق ان لٹیروں کے ہی ہیں غریب ملکوں اور غریبوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں جن کے خون پسینے کی کمائی لوٹ لی جاتی ہے نہ ان کے لیے تعلیم کی خاطر خواہ سہولتیں بہم پہنچائی جا سکتی ہیں اور نہ ہی میڈیکل کی نہ انہیں کھانا اچھا ملتا ہے اور نہ ہی ماحول بیماری سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دیتے ہیں کیا غریب انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں کیا صرف سارے حقوق امیروں اور امیر ملکوں کے لیے ہی ہیں یہ روش کو تبدیل کرنا ہو گا بھلے اس کے لیے امیر ملکوں کو قوانین تبدیل کرنے پڑیں یا پھر غریب ملکوں میں کرپشن بارے سخت قوانین لانے پڑیں چائنا میں کرپشن کی سزا موت ہے، کیا پاکستان میں ایسی سزا دی جاسکتے گی یا پھر کرپشن ثابت ہو جانے پر جو کہ قومی چوری ہے اسلامی سزا کے طور پر ان لٹیروں کے ہاتھ کاٹے جا سکیں گے اس بارے پاکستان کے قانون بنانے والے اداروں کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ورنہ کئی اسحاق ڈار نواز شریف اور زرداری وجود میں آتے رہیں گے اور غریب اپنے حقوق کا رونا روتے رہیں گے میڈیا انہیں لوگوں کے انٹرویو چھاپ چھاپ کر روٹی روزی کا بندوبست کرتے رہیں گے کہ ایسی خبروں کی ہر جگہ ڈیمانڈ ہوتی ہے۔