پی ڈی ایم اکابرین نے لاہور کے جلسہ عام میں اپنی تحریک کا اگلا مرحلہ اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ کو قرار دیا ہے۔ لانگ مارچ جنوری میں ہوگا یا فروری کے مہینہ میں اس کا انتظار کیا جائے گا‘ اس پر مسلسل ایک دوسرے سے صلاح مشورے میں مصروف پی ڈی ایم رہنما متفق نہ ہو سکے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر مولانا فضل الرحمن نے حاضرین جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ عوام کی راہ سے ہٹ جائے اور ناجائز حکومت برطرف کرنے کے لیے قوم اپنا کردار ادا کرے‘ محترمہ مریم نواز کی رائے میں لاہوریوں نے جعلی تبدیلی مینار پاکستان کے سبزہ زار میں ہمیشہ کے لیے دفن کردی۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ حکومت ان کے ساتھ بیک ڈور رابطے بند کرے۔ جلسے سے اختر مینگل‘ آفتاب شیرپاﺅ‘ میاں افتخار اور دیگر رہنماﺅں نے بھی خطاب کیا۔ خطاب کے اس سلسلے میں محمود اچکزئی نے لاہور اور پنجاب کے لوگوں کے خلاف جس تاریخی بغض کا مظاہرہ کیا وہ قومی یکجہتی اور ملکی سلامتی کے لیے تخریبی حیثیت رکھتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ خود کو واحد وفاقی جماعت کہلانے والی پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین نے اچکزئی صاحب کو روکا نہ میزبان مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے ان بے جا شکوﺅں اور الزامات کا سلسلہ بند کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کی۔ لاہور میں جلسہ کامیاب ہونے کا ابتدائی معیار اپوزیشن نے خود شرکا کی تعداد کو ٹھہرایا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی شخصیات اپوزیشن کو چیلنج کرتی رہیں کہ پی ڈی ایم میں شامل چھوٹی بڑی 11 جماعتیں مینار پاکستاان کا سبزہ زار بھر کر دکھائیں۔ جلسے کے اختتامی سیشن میں جب مرکزی رہنماﺅں نے خطاب کیا تو لوگ اس انتظار میں تھے کہ اپوزیشن قائدین اگلے لائحہ عمل کے طور پر کیا اعلان فرماتے ہیں‘ اپوزیشن کے حامی طبقات کا خیال تھا کہ جلسے کے اختتام پر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اپنے اراکین پارلیمنٹ کے استعفے مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ پر رکھ کر جلسوں کے سلسلے کو نتیجہ خیز بنا دیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پی ڈی ایم بنیادی طور پر مولانا فضل الرحمن اور میاں نوازشریف کے مشترکہ مقصد پورے کرنے کا ایک سیاسی پلیٹ فارم ہے۔ دونوں چاہتے ہیں کہ بھلے غیر آئینی طریقے سے حکومت ختم کرنا پڑے‘ عمران خان کو چلتا کیا جائے۔ پیپلزپارٹی کا ریکارڈ بہرحال اس معاملے میں اب تک صاف ہے کہ اس نے ہمیشہ غیر آئینی اقدامات کی مخالفت کی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی وہ حکمت عملی جو مولانا اور مریم نواز طے کرتے ہیں جب غیر آئینی سطح کو چھوتی ہے تو پیپلزپارٹی انہیں روک لیتی ہے۔ پیپلزپارٹی اگر انتہائی اقدام کی حمایت کرتی ہے تو اسے نہ صرف اپنی صوبائی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں بلکہ اس کی جمہوری سیاست بھی ہمیشہ کے لیے داغدار ہو جاتی ہے۔ پی ڈی ایم کی ساری سرگرمیاں ذرائع ابلاغ پر خوب توجہ حاصل کرتی رہیں لیکن عوام عمومی طور پر لاتعلق رہے عوام کا معاملہ پولیس‘ مہنگائی اور بدامنی ہوتا ہے۔ پولیس مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہو سکی تاہم کافی حد تک سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہو چکا ہے جس سے بعض معاملات میں عام آدمی کو آسانی ملی ہے۔ جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے تو مہنگائی کے تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ گنا کاشت کرنے والے کو گنے کی فی من ادائیگی میں اضافہ ہوا‘ اس سے چینی کے نرخ بڑھے۔ اب جو اضافہ ہوا وہ کسی ایک طبقے کی جیب میں جا کر رک نہیں گیا بلکہ ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے طبقے کو منتقل ہوا۔ لوگوں کی قوت خرید اگر متاثر نہیں ہوئی تو مہنگائی کو دوسرے انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کچھ معاشی مسائل کا تعلق سابق حکومتوں کے لیے گئے بیرونی قرضوں اور کورونا کی وبا سے ہے۔ مثبت امر یہ ہے کہ پاکستان کے عوام اس کا ادراک رکھتے ہیں کہ حکومتوں کا احتساب کیسے کیا جائے۔ اپوزیشن اب تک کوئی مضبوط اور دلکش نعرہ تخلیق نہیں کرسکی۔ اس کے مقابل عمران خان نے احتساب کا طاقتور نعرہ دیا۔ ڈھائی سال گزر گئے اپوزیشن کوشش کے باوجود عمران خان کی ذات پر کرپشن کا ایک الزام ثابت نہیں کرسکی۔ اس صورت حال میں جب اربوں اور کھربوں روپے کی بدعنوانی کے الزامات میں گھرے سیاستدان عمران خان پر تنقید کرتے ہیں تو عوام ان کو نظر انداز کردیتی ہے۔ پارلیمنٹ سے استعفے دینا کوئی قابل تحسین کام نہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوگا کہ اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کو بالادست تسلیم کرتے ہیں نہ پارلیمانی مکالمے کی روایت پر یقین رکھتے ہیں۔ جمہوری نظام کا تحفظ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ترجیح ہونا چاہیے۔ استعفوں سے جمہوری نظام نئے مسائل کا شکار ہو سکتا ہے لہٰذا اپوزیشن جماعتیں صرف دو پارٹیوں کے ایجنڈے کے لیے ذاتی مفادات کی اسیر ہونے کی بجائے وسیع قومی تناظر میں صورت حال کا تجزیہ کریں۔ قومی سلامتی کے خلاف سرگرم گروہ پہلے ہی اپوزیشن کا کندھا استعمال کر کے ملک میں انتشار کی کوششیں شروع کر چکا ہے۔ ان کوششوں کا سدباب نہ ہوا تو حالات ابتری کی طرف جا سکتے ہیں۔
٭٭٭