کابل:
افغانستان میں قیام امن کیلیے پاکستان کی طرف سے کی جانے کی کوششوں کو سبوتاژکرنے کیلیے بدھ کے روز بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے مشیر قومی سلامتی اجیت ڈوول غیر اعلانیہ دورہ پر کابل پہنچ گئے جب کہ انھوں نے یہ دورہ ایسے موقع پر کیا ہے جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں انتہائی انٹرافغان مذاکرات جاری ہیں۔
افغان صدر کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق ملاقات کے دوران افغانستان میں قیام امن کیلئے جاری کوششوں اوردہشتگردی سے نمٹنے کیلیے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔دوسری طرف بھارت کی طرف سے اس دورے کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
بھارتی مشیرقومی سلامتی کے دورہ کابل پر گہری نظر رکھے ہوئے پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اجیت ڈوول کا یہ دورہ افغانستان میں قیام امن کیلئے کی جانے والی امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی بھارتی کوششوں کا حصہ ہے کیونکہ بھارت افغانستان میں امن نہیں چاہتا۔
ایک پاکستانی عہدیدار نے اپنا نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان میں یہ پختہ رائے پائی جاتی ہے کہ افغانستان میں امن واستحکام بھارت کو پسند نہیںلہذا وہ حالات خراب کرنے کی کوششیں کرتا رہے گا تاکہ وہ اس بدامنی سے فائدہ اٹھا سکے۔
اس کے برعکس افغانستان میں امن کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان ،ایران اورروس کو ہے لہذا تینوں ملک وہاں امن کو موقع دینے کیلئے علاقائی سطح پر ایک دوسرے سے متفق ہیں۔
دوسری طرف بھارت حالات خراب کرنے کیلئے سرگرم ہے۔پاکستان افغانستان میں بدامنی کیلئے اندرونی اوربیرونی عناصر کی باربار نشاندہی کرتا رہا ہے ،بیرونی عناصر سے مراد بھارت ہی ہے۔ایک دوسرے پاکستانی عہدیدارکا کہنا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت ہے۔ لہذا اجیت ڈوول کا دورہ کابل بلاوجہ نہیں۔بھارت نے افغانستان میں امن کیلئے کی جانے والی کوششوں کو ابھی تک دل سے تسلیم نہیں کیا۔
صدر ٹرمپ کی امریکی انتظامیہ نے بھارت کے افغان طالبان کے ساتھ رابطے کرا کے انہیں ایک سیاسی حقیقت کے طور پر قبول کرنے کیلئے بھارت پر دباؤڈالا تھا۔لیکن نریندرمودی کی بھارتی حکومت ابھی تک اس سے گریز کرتی آرہی ہے اوراس نے افغانستان میں قیام امن کیلئے ایران اورروس سمیت خطے کے ممالک کی طرف سے کی جانے والی کوششوں سے خود کو الگ رکھا ہوا ہے۔
ایران اورروس ماضی میں طالبان کے مخالف رہے ہیں لیکن اب انہوں نے اپنا مؤقف تبدیل کرکے طالبان کو افغانستان کی ایک سیاسی حقیقت کے طور پر تسلیم کرنے کے بعد ان سے براہ راست رابطے قائم کرلیے ہیں۔خطے کے ایک دوسرے بنیادی کردار چین نے بھی طالبان کے ساتھ ورکنگ ریلشن شپ قائم کرلی ہے۔
پاکستان نے امریکا کو اس امرسے پوری طرح آگاہ کردیا ہے کہ بھارت کبھی افغانستان میں امن نہیں چاہے گا۔پاکستان بار بار امریکا کو باور کراتا آیا ہے کہ بھارت کی دلچپسی افغانستان میں بدامنی پھیلانے میں ہے۔پاکستان عرصہ سے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال کی بھی شکایت کرتا آیا ہے۔
پاکستان نے حال ہی میں بھارت کے خلاف ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ ڈوزیئرزفراہم کیے ہیں جن میں بھارت کی طرف سے تشدد کو بڑھاوا دینے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ان ڈوزیئرزمیں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے افغان سرزمین پر سرگرم پاکستان مخالف طالبان گروپوں اور بلوچ دہشتگردوں کے مابین گٹھ جوڑ کرانے کا خاص طور پر ذکرکیا گیا ہے۔
اس عہدیدار کے بقول اگر افغانستان میں امن اور استحکام آجاتا ہے تو بھارت کیلئے افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ناممکن ہوجائیگا۔ اسی وجہ سے پاکستان افغانستان میں کسی قسم کے بھارتی کردار پر شبہات کا اظہارکرتا آرہا ہے لیکن پاکستانی خدشات کے باوجود گزشتہ سال فروری میں دوحہ میں ہونے والے امریکا طالبان امن معاہدے اور اس کے بعد ستمبر میں انٹرا افغان مذاکرات شروع کرانے کی کوششوں میں دونوں بار بھارت کووہاں مدعو کیا گیا۔
بھارت جو یکم جنوری سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن بنا ہے،طالبان کے خلاف پابندیوں کے بارے میں عالمی ادارے کی کمیٹی کی سربراہی بھی کررہا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ امریکا چاہے گا کہ بھارت افغانستان میں امن کوششوں کا حصہ بنے۔
پاکستان کا خیال ہے کہ بھارت کوکسی قسم کا کوئی کردار دینا افغانستان میں امن کیلئے نقصان دہ ہے۔ افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا دوسرا دور ان دنوں دوحہ میں جاری ہے جس میں افغانستان کے اگلے سیاسی روڈ میپ اور جنگ بندی پر توجہ مرکوز کی جائیگی۔
یہ مذاکرات امریکا طالبان معاہدہ کے تحت ہورہے ہیں جس کے تحت امریکا اس سال مئی تک افغانستان سے اپنی فوجوں کو واپس بلا لے گا جبکہ طالبان افغان سرزمین کو دہشتگردگروپوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں بائیڈن انتظامیہ بھی ٹرمپ کی پالیسیوں کو جاری رکھتی ہے یا کہ ان پر نظرثانی کرتی ہے۔