اچھے دن!!!

0
366
عامر بیگ

عامر بیگ

ہوگو شاویز کے زمانہ میں وینزویلا جانے کا اتفاق ہوا ،گاو¿ں اور شہروں میں گھومنے پھرنے کا بھی موقع ملا دیکھا کہ غربت ہے مگر لوگ خوش ہیں ،امید ہے لوگوں کو سکول ختم ہونے کے بعد میز، کرسیاں لگا کر کھانے کھلائے جاتے ہیں ،امیر غریب کی کوئی بندش نہیں جو چاہے آئے کھائے، کوئی حساب کتاب نہیں رکھا جاتا کون آیا ،کون گیا، صرف نمبرز کاو¿نٹ کئے جاتے ہیں کہ اتنے بندے کھانا کھا گئے ،ہر شام ہوگو شاویز ٹی وی پر بیٹھ کر خود مانیٹر کرتا تھا، بتاتا تھا کہ کہاں کتنے لوگوں کو کھانا ملا ،کیسا ملا اور اگر کسی کو کوئی شکایت ہے تو پوچھا بھی جاتا تھا، صفائی اور اچھا کھانا مانیٹر کیا جاتا، اسی کے دور میں وینزویلا میں موجود تمام امریکیوں کو نکل جانے کا حکم بھی دیا گیا پھر شاویز نے امریکہ کے بے بی بش کو امریکہ جا کر کتے کا پلا بھی کہا تھا اور پھر اس کتے کے پلے نے بدلہ لیا، پریذیڈنٹ شاویز کوگرفتار کر لیا گیا، عوام سڑکوں پر تھی، مطالبہ تھا کہ جب تک ہوگو شاویز “پلاسیو دے پریذیڈنتے” کی کھڑکی میں کھڑا ہو کر ہاتھ نہیں ہلائے گا عوام گھر نہیں جائیں گے مجبوراً ایسا ہی کرنا پڑا اور ہوا پریذیڈنٹ ہوگو شاویز کو نکالا گیا ،صدارتی محل کی کھڑکی میں لایا گیا اور عوام کو مختصر خطاب میں شاویز نے کہا کہ اب آپ اپنے اپنے گھروں کو جائیں، میں واپس آگیا ہوں، آپکی خدمت کرنے کے لیے آپ سب کا بہت بہت شکریہ، وہاں بھی پہلے تین چار سال تک اسی طرح عوام کو مشکلات پیش آئی تھیں مگر پھر عوام خوش تھی ابھی پاکستان بھی مشکل دور سے گزر رہا ہے ،پاکستان میں بھی سرکاری لنگر خانے کھولنے کی نوبت آگئی ہے جس پر اپوزیشن کو بڑا اعتراض ہے کہ خود بھی بھکاری تھا اور قوم کی عزت نفس سے بھی کھیل رہا ہے او جھلیو ریاست مدینہ میں تو ایک کتا بھی دریا فرات کے کنارے بھوکا مرتا تھا تو حکمران ذمہ دار ہوتا تھا ،پناہ گاہیں کھولی جارہی ہیں ،ایک ویلفیئر سٹیٹ کا منصوبہ ُاجاگر کیا جا رہا ہے ،بچت کے اصول سکھائے اور اپنائے جا رہے ہیں، روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ تو آپ لگاتے تھے ،سستے تندوروں سے بھی مال بنا گئے۔ بے نظیر اِنکم سکیم سے ابھی تک رقمیں وصول کرتے رہے ہو، بیرون ملک دوروں پر ایک فوج تھی جو ہم رکاب چلتی تھی جسکا سارا خرچہ غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ادا ہوتا تھا اور تو اور حج عمرے تک سرکاری خرچ پر ڈھنڈورچیوں کے ہمراہ کئے جاتے تھے ،اللہ قبول فرمانے والا ہے ،اللہ سب دیکھ رہا ہے، اسکے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ،اب ان تمام الائیشوں سے چھٹکارا ہے ابھی دودھ کی نہریں تو نہیں بہتی مگر امید پیدا ہو چلی ہے خزانے کو لگے سوراخ بند کر دے گی، سرمایہ آرہا ہے سترہ سال کے عرصہ کے بعد سرپلس میں آگئے ہیں، ایکسپورٹس اور ریمیٹینسز بڑھ گئی ہیں، مطلب ہماری اِنکم ہمارے اخراجات سے زیادہ ہے اگر لیے گئے بھاری قرضوں کی اقساط ادا نہ کرنی ہوتیں تو ہم بہت بہتر پوزیشن میں تھے، اس کا اثر پڑے گا، عوام کی زندگیوں پر لیے گئے قرضے واپس ہونگے ،عوام کو ٹیکس کی مد میں چھوٹ ملے گی ،تنخواہوں میں اضافہ ہوگا، لوگوں کی قوت خرید بڑھے گی، لوگوں کو سکون ملے گا، اچھے دن ضرور آئیں گے، انشااللہ ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here