ماجد جرال
امریکی ایوانوں سے اب یہ بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ رواں برس جلد ہی امریکہ سے کورونا کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن بنایا جاسکے گا۔اس خبر کی تشہیر کے بعد امریکہ کی مجموعی صورتحال پر یقینا مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ گزشتہ برس شروع ہونے والی اس وبا کے بعد انسانی زندگی کئی حیران کن مراحل سے گزری، کئی کاروبار متاثر ہوئے اور روزمرہ زندگی کی مصروفیات میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ان سب سے زیادہ اہم وہ چیلنجز تھے جو انسانی زندگیوں کو درپیش آئے۔ امریکی حکومت نے بلاشبہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنے طور پر بے شمار کام کیا۔ مگر ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ اس کے ساتھ ساتھ کمیونٹیز کی مختلف سماجی تنظیموں نے بھی اس دورانیے میں حکومتی مشینری کے شانہ بشانہ رضاکارانہ طور پر شاندار خدمات انجام دیں۔ مجھے ذاتی طور پر کس بات پر بڑی خوشی ہوئی کہ پاکستانی کمیونٹی کی متعدد تنظیمیں اور خاص کر امریکی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم اکنا نے جن جن کٹھن مراحل سے گزر کر لوگوں کی خدمت کے لیے کیمپنگ کی، وہ خراج تحسین کے مستحق تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ رضاکارانہ کام کرنے والی دیگر تنظیموں کے لیے بھی بے شمار مثالیں جنم دے گئی ہے۔ خصوصا مجھے ذاتی طور پر برونکس میں میں دو یا تین مرتبہ اکنا ریلیف کے پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں شدید سردی میں، برف باری کے دنوں میں، یا جیسے بھی حالات ہوں محترم شبیر گل اور ان کی ٹیم نے انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں لوگوں کو روز مرہ زندگی کی ضروریات اشیا کی فراہمی کو ہر صورت یقینی بنایا۔ طویل قطاروں میں موجود لوگوں کو کبھی اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا کہ ان کو قطاروں میں کھڑے ہونے کے بعد شاید اپنی باری آنے پر کسی چیز کی کمی کا سامنا کرنا پڑے، یہ کسی بھی تنظیم کی جانب سے امدادی سرگرمیوں میں انتہائی پیشہ ورانہ مینجمنٹ کی اعلیٰ مثال ہے۔ بروکلین میں دیکھا جائے تو علامہ اقبال کمیونٹی سنٹر، پاکستانی امریکن سکلیڈ وویمن آرگنائزیشن، پائیو،کوپو، اور دیگر کئی تنظیمیں جن کے نام اس وقت ذہن میں نہیں آ رہے، سب نے مل کر کرونا وبا کے اس دورانیے میں لوگوں کی خدمت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی، حکومتی کوششیں اپنی جگہ مگر ایک لمحے کیلئے تصور کیجیے کہ ان فلاحی تنظیموں کا اگر کردار امدادی سرگرمیوں سے نکال دیا جائے تو خدا نخواستہ کسی صورت حال کا لوگوں کو سامنا کرنا پڑتا۔خدا کرے کہ کرونا وبا جلد اپنے انجام کو پہنچے، مگر امدادی سرگرمیوں کوانجام دینے والے ان تمام تنظیموں کے کردار کو شاید مدتوں یاد رکھا جانا ضروری ہے۔
میں اس بات کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھ رہا ہوں، یہ ایک ترقی یافتہ اور منظم نظام رکھنے والے ملک کی تربیت ہی ہے کہ ایمرجنسی کی اس صورتحال میں کتنے منظم انداز میں تمام امدادی کام سرانجام دیے گئے، مختلف علاقوں میں مختلف تنظیموں کی جانب سے مختلف دورانیہ میں یہ سرگرمیاں انتہائی منظم انداز میں سرانجام دی گئی۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا کہ امدادی سامان یکساں طور پر ہر شخص کو میسر آیا جبکہ کرونا وبا کے اسی دورانیہ میں کئی ممالک سر پکڑ کر بیٹھ گئے، یہ ممالک کی ترقی پذیر ممالک میں سے نہیں تھے بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں سے ہیں، شاید ان ممالک میں امدادی سرگرمیوں کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرنے والی ایسی تنظیموں کا وجود ابھی اتنا مو¿ثر نہیں، اگر یہ بات درست ہے تو امریکی نظام کو اس لئے بھی سراہا جانا ضروری ہے کہ اس نے ایسی فلاحی تنظیموں کے وجود کو زندہ رہنے کے لیے مناسب طور پر دیکھ بھال کا ایک نظام بنا رکھا ہے۔ بہرحال کرونا جب بھی ختم ہو، ان فلاحی تنظیموں کے کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
امریکی ایوانوں سے اب یہ بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ رواں برس جلد ہی امریکہ سے کورونا کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن بنایا جاسکے گا۔اس خبر کی تشہیر کے بعد امریکہ کی مجموعی صورتحال پر یقینا مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ گزشتہ برس شروع ہونے والی اس وبا کے بعد انسانی زندگی کئی حیران کن مراحل سے گزری، کئی کاروبار متاثر ہوئے اور روزمرہ زندگی کی مصروفیات میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ان سب سے زیادہ اہم وہ چیلنجز تھے جو انسانی زندگیوں کو درپیش آئے۔ امریکی حکومت نے بلاشبہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنے طور پر بے شمار کام کیا۔ مگر ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ اس کا ساتھ ساتھ کمیونٹیز کی مختلف سماجی تنظیموں نے بھی اس دورانیے میں حکومتی مشینری کے شانہ بشانہ رضاکارانہ طور پر شاندار خدمات انجام دیں۔ مجھے ذاتی طور پر کس بات پر بڑی خوشی ہوئی کہ پاکستانی کمیونٹی کی متعدد تنظیمیں اور خاص کر امریکی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم اکنا نے جن جن کٹھن مراحل سے گزر کر لوگوں کی خدمت کے لیے کیمپنگ کی، وہ خراج تحسین کے مستحق تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ کام کرنے والی دیگر تنظیموں کے لیے بھی بے شمار مثالیں جنم دے گئی ہے۔ خصوصا مجھے ذاتی طور پر برونکس میں میں دو یا تین مرتبہ اکنا ریلیف کے پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں شدید سردی میں، برف باری کے دنوں میں، یا جیسے بھی حالات ہوں محترم شبیر گل اور ان کی ٹیم نے انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں لوگوں کو روز مرہ زندگی کی ضروریات اشیا کی فراہمی کو ہر صورت یقینی بنایا۔ طویل قطاروں میں موجود لوگوں کو کبھی اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا کہ ان کو قطاروں میں کھڑے ہونے کے بعد شاید اپنی باری آنے پر کسی چیز کی کمی کا سامنا کرنا پڑے ، یہ کسی بھی تنظیم کی جانب سے امدادی سرگرمیوں میں انتہائی پیشہ ورانہ مینجمنٹ کی اعلیٰ مثال ہے۔ بروکلین میں دیکھا جائے تو علامہ اقبال کمیونٹی سنٹر، پاکستانی امریکن سکلیڈ وویمن آرگنائزیشن، پائیو،کوپو، اور دیگر کئی تنظیمیں جن کے نام اس وقت ذہن میں نہیں آ رہے، سب نے مل کر کرونا وبا کے اس دورانیے میں لوگوں کی خدمت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی، حکومتی کوششیں اپنی جگہ مگر ایک لمحے کیلئے تصور کیجیے کہ ان فلاحی تنظیموں کا اگر کردار امدادی سرگرمیوں سے نکال دیا جائے تو خدا نخواستہ کسی صورت حال کا لوگوں کو سامنا کرنا پڑتا۔خدا کرے کہ کرونا وبا جلد اپنے انجام کو پہنچے، مگر امدادی سرگرمیوں کوانجام دینے والے ان تمام تنظیموں کے کردار کو شاید مدتوں یاد رکھا جانا ضروری ہے۔
میں اس بات کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھ رہا ہوں، یہ ایک ترقی یافتہ اور منظم نظام رکھنے والے ملک کی تربیت ہی ہے کہ ایمرجنسی کی اس صورتحال میں کتنے منظم انداز میں تمام امدادی کام سرانجام دیے گئے، مختلف علاقوں میں مختلف تنظیموں کی جانب سے مختلف دورانیہ میں یہ سرگرمیاں انتہائی منظم انداز میں سرانجام دی گئی۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا کہ امدادی سامان یکساں طور پر ہر شخص کو میسر آیا جبکہ کرونا وبا کے اسی دورانیہ میں کئی ممالک سر پکڑ کر بیٹھ گئے، یہ ممالک کی ترقی پذیر ممالک میں سے نہیں تھے بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں سے ہیں، شاید ان ممالک میں امدادی سرگرمیوں کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرنے والی ایسی تنظیموں کا وجود ابھی اتنا مو¿ثر نہیں، اگر یہ بات درست ہے تو امریکی نظام کو اس لئے بھی سراہا جانا ضروری ہے کہ اس نے ایسی فلاحی تنظیموں کے وجود کو زندہ رہنے کے لیے مناسب طور پر دیکھ بھال کا ایک نظام بنا رکھا ہے۔ بہرحال کرونا جب بھی ختم ہو، ان فلاحی تنظیموں کے کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
٭٭٭