1887ء میں فرانس نے دنیا بھر میں مغربی دنیا کی استطاریت کے تحت ویت نام کو اپنی نو آبادیات میں شامل کرلیا جس پر دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان1940میں قبضہ کرلیا۔جب میری جنگ عظیم میں جاپان کو شکست ہوئی۔تو فرانس نے ویت نام کو واپس لے لیا مگر جاپان کے قبضے کے دوران ویت نام میں جنگ آزادی کا آغاز ہوچکا تھا۔جس کے رہنما کمیونسٹ موچی منہ تھے جس کا سلسلہ فرانس کے ویت نام پر قبضے تک جاری ہوگا۔چونکہ فرانس دوسری جنگ عظیم میں کمزور ہوچکا تھا۔جس کی کمر جرمن نے توڑ ڈالی تھی اس سے فرانس نے ایک اور جنگ عظیم کے اتحادی ملک امریکہ کے1954میں حوالے کردیا۔جو مارچ1975تک ویت نام میں پرائی جنگ لڑتا ہوں جس کو آخر کار شکست ہوئی جس کی آخری فلائیٹ کے ذریعے امریکہ اپنے بچے کھچے لوگوں کو لے بھاگا۔تاہم ویت نام جنگ میں دو ملین ویت نامی حریت پسند مارے گئے جبکہ امریکہ کے58ہزار فوجی ہلاک اور لاکھوں زخمی ہوئے تھے۔مزید برآں ویت نام کی روس اور چین کھل کر مدد کی۔جو امریکہ کی شکست باعث بنا جس کا بدلہ لینے کے لیے امریکہ نے افغانستان کو چنا یہاں مسلمانوں کے حصہ میں عقیدت جہاد کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی مدد سے جہادی پیدا کئے جنہوں انقلاب افغانستان کے خلاف جہاد لڑا جو صدیوں کی بادشاہت اور آمریت ختم کرکے افغانوں کو نئی زندگی میسر کرنے کے لئے لایا گیا۔مگر افغانوں نے امریکی پرانی جنگ کو جہاد یا فساد کے نام پر وہ انقلاب ناکام بنا دیا۔آخرکار1987میں جنیوا معاہدے کے مطابق روسی فوجوں کا انخلاء ہوا جس کے بعد جہادیوں نے معاہدے کو تہس نہس کرتے ہوئے کابل پر چڑھ دوڑے جو گزشتہ30سالوں سے ایک دوسرے کو قتل وغارت گری میں مصروف رہے۔جس سے اب تک ڈھائی ملین افغانستان مارے جاچکے ہیں۔جنیوا معاہدے کے بعد امریکہ بھی افغانستان سے منصوبہ بندی کے تحت کوچ کر گیاجو نائن الیون کے سانحہ کے بعد2001میں دوبارہ حملہ آور کی شکل میں افغانستان میں واردموا تھا جو آخرکار ویت نام کی طرح شکست فاش کے بعد اپنی پھر آخری فلائیٹ سے افغانستان چھوڑ کر جارہا ہے۔جس پر امریکی صدر جوبائیڈن نے اقرار کیا ہے کہ ہم نے افغانستان چھوڑ کر جارہا ہے جس پر امریکی صدر جوبائیڈن نے اقرار کیا ہے کہ ہم نے افغانستان میں کھویا ہے پایا کچھ نہیں ہے۔جس سے معلوم ہوا کہ امریکہ کو سود جنگوں کے دوران یا بعد میں ماسوائے عراق باقی تمام مقامات پر شکست ہوئی ہے جس میں کوریا، ویت نام، افغانستان، عراق،لیبیااور شام میں یہاں تقریباً دس ملین انسان لقمہ اجل بن چکا ہے۔جس کا گناہ امریکہ پر جاتا ہے جس نے بلاجواز جنگیں مسلط کی ہیں جس سے انسانیت کا جانی مالی اور معاشی نقصانات کا شمار کرنا مشکل ہوچکا ہے۔بہرکیف افغان جنگ میں پاکستان کو بے تحاشہ سیاسی، معاشی اور سماجی نقصانات پہنچے ہیں۔ملک میں دہشت گردی کا دور دور چل نکلا۔گلی کوچوں میں ڈرگ اور اسلحے کا کاروبار چمکا جس سے پاکستان خون میں لت پت ہوگیا۔پاکستان نے پہلے35لاکھ افغان مہاجرین ملک میں آنے دیئے جن پر جنرلوں نے اربوں ڈالر کمائے جن کی اولادیں پاکستان کی امیر ترین لوگ بن چکے ہیں۔اب پھر امریکہ کے جانے کے بعد خوفناک خانہ جنگی کے اثرات پیدا ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے مزید دس لاکھ مہاجرین پاکستان آرہے ہیں۔جس سے پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائیگا۔جب بھی مہاجرین کا بل پر قابض حکمرانوں کے ساتھ مل کر ڈیورنڈ لائن کے فاتح کا مطالبہ کریں گے۔جس پر آج تک پھر افغان حکومت مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے کہ چارسدہ، مردان، اور اٹک تک افغان علاقے واپس کیے جائیں جن کے بارے میں انگریزوں اور افغانوں کے درمیان معاہدہ ہوا تھاکہ ننانوے سال بعد یہ علاقے واپس افغانستان کو دے دیئے جائیں گے۔جب تک راجہ رنجیت سنگھ کے دور سلطنت قبضہ ہوا تھا۔جس پر پاکستانی حکمران بھی پریشان نظر آرہے ہیں۔جو آناً فاناً نیشنل سکیورٹی کے اجلاس بلا کر افغان ایشوز سے مطلع کر رہے ہیںکہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد کیا ہوگا طالبان پاکستان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو پہلے والے حکمران کرتے چلے آرہے ہیںجو تمام کے تمام ڈیورنڈ لائن کے مخالف ہیں۔بہرحال31اگست کی امریکی دوسری بار آخری فلائیٹ جو سقوط سائیگان کے بعد سقوط افغان اڑنے والی ہے جس کے بعد دیکھنا ہوگا۔کہ افغانستان میں خوفناک اور ہولناک خانہ جنگی ہوگی یا پھر افغان طالبان فتح مکہ اور میثاق مدینہ پر عمل کریں گے کہ جس میں مساوی حقوق کے پاسبان ہونگے۔جس میں انتقام اور بدلہ درگزر ہوگا یا پھر کفار مکہ کی طرح عہد جہالت کا شکار ہو کر افغانوں کا قتل عام کریں گے یا پھر ویت نام اور سائوتھ افریقہ کی طرح اپنی فتح کا جشن منانے کی بجائے عام معافی کا اعلان کریں گے۔تاکہ افغانستان بھی ویت نام اور سائوتھ افریقہ کی طرح بچ جائے جو آج دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہوچکے ہیں۔ جس نے مزاحمت کے بعد مفاہمت کا طریقہ کاراختیار کیا جس سے دونوں ملک صدیوں اور دہائیوں کی جنگ وجدل کے بعد اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب رہے۔یا پھر ایران بھی افغانوں کے سامنے مثال ہے جس نے ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ کیا جو آج تمام تر سامراجی اور استعماری طاقتوں کے بائیکاٹ کے باوجود قائم دائم ملک ہے۔جس نے گزشتہ چار دہائیوں کی پابندیوں کے باوجود اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے۔لہٰذا آج افغانوں کے پاس دوسرا کوئی موقع آیا ہے۔کہ وہ ملک میں خانہ جنگی کی بجائے امن قائم کریں۔عہد جہالت کو ترک کرکے جدید ریاست کی بنیاد رکھیں۔قدیم کھلا دھاڑ کی رسم رواج کو خیرباد کہہ دیں جن کے سامنے اب ہندوستان اور پاکستان کوئی کمزور ملک نہیں جن پر افغان چڑھ دوڑیں کبھی لاہور اور پھر دہلی پر قبضہ کریں۔اب یہی افغانستان رہے گا جس کے علاقے کم ہوسکتے ہیں۔مزید توسیع نہیں ہوسکتے ہیں ماضی کو بھول جائیں کہ کیا ہوا اور کیوں کرتے رہے ہیں۔اگر برطانیہ سکڑ سکتا ہے جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا تو افغانستان کیا بیجتا ہے۔لہٰذا امن کے علاوہ باقی سب تباہی ہے جو قوم یا عوام خانہ جنگی میں مبتلا رہتی ہے،وہ مٹ جاتی ہے۔افغانوں کی ایک دوسرے خلاف جنگ نظریاتی نہیں ہے۔یہ سامراجی اور استعماری طاقتوں کی سازشیں ہیں جن نے افغانستان تباہ وبرباد کردیا ہے۔جو افغانوں کے لیے بقا کا مسئلہ بن چکا ہے۔جس کے لیے لازمی ہے۔وہ اپنا دوبارہ اتحاد قائم کریں رسول مقبول ۖ کے نقش قدم پر چل کر عمل کریں۔انتقام اور بدلے کی بجائے عام معافی کا اعلان کریںتاکہ افغانستان میںموجودہ خوف وہراس کا سماں ختم ہوجائے۔علاوہ ازیں طالبانوں کو ایرانی اور روسی مذاکرات پر عملدرآمد کرنا چاہئے تاکہ افغانستان مزید خون وخرابے سے بچ جائے۔
جن کو اب بلاتفریق اور بلاامتیاز ہر افغان کو شامل کرنا ہوگاجو لوگ ترک وطن پر مجبور ہوئے ان کو واپس بلانا ہوگا جو موجودہ بدحال اور بے حال افغانستان کی مدد کر پائیں۔قصہ مختصر افغان طالبان اور دوسرے گروہوں،گروپوں کے پاس اب زیادہ وقت نہیں ملے گا وہ افغانستان کو مزید خانہ جنگی میں مبتلا رکھیں۔جس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں عام غیر جانبدارانہ انتخابات ہوں ملک کی منتخب مجلس شورز کا وجود لایا جائے جو ملکی حالات و واقعات کے مطابق قانون سازی کرے۔ایسی حکومت تشکیل دے جس طرح سائوتھ افریقہ کی نیلسن منڈیلا نے حکومت نے صدیوں سے سفید اور سیاہ ناموں کی نفرتوں اور حقارتوں کی دوریوں کو مٹا دیا کہ آج سائوتھ افریقہ ایک مثالی ریاست بن چکا ہے۔لہٰذا اب افغانوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ صومالیہ کی بجائے ویت نام اور سائوتھ افریقہ کی ریاست بن جائے تاکہ افغانستان بچ جائے۔
٭٭٭