آخری فلائٹ کے آخری سوار

0
147
رمضان رانا
رمضان رانا

افغانستان میں 42سال خانہ جنگی کا بظاہر خاتمہ نظر آرہا ہے جس میں بیس سالہ طالبان کی مزاحمت کاری شامل ہے جس کے بعد امریکی اپنی آخری فلائیٹ کے ذریعے31اگست سے ایک دن پہلے پرواز کر گیا جس کا آخری سوار میجر جنرل کریس دانامو تھا جس کو میڈیا پر مسلسل دیکھا گیا جن کا پاکستان میں مذاق اڑایا گیا جبکہ فوجی روایات کے مطابق ایک فوجی کمانڈر کا اپنے تمام سپاہیوں اور افسروں کے مکمل انخلاء کے بعد جہاز پر سوار ہونا قابل ستائش قدم سمجھا جاتا ہے کہ سپاہیوں کی بجائے کمانڈر سب سے آخر میں انخلائی جہاز میں سوار ہوا تھا۔تاہم روسی انخلاء کے بعد افغانستان شدید خانہ جنگی میں مبتلا ہوگیا تھا اسی طرح اب امریکی انخلاء کے بعد شک وشبہات پائے جارہے ہیں کہ افغانستان میں امن مزید خراب ہوگاحالانکہ کابل پر طالبان کا مکمل قبضہ ہے مگر نارتھ میں طالبان کے خلاف مزاحمت جاری ہے۔جو کسی بھی وقت لارڈز کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔چونکہ طالبان کے خوف سے تمام پیشہ ور اساتذہ، پروفیسر، ڈاکٹرز،اینکرز، انجینئرز، پولیس، فوج اور دوسرے اداروں کے اہلکار بیرون ممالک جانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔شکر ہے کہ آج اقوام متحدہ ہے جو ریاستوں کے جغرافیہ کی ذمہ دار ہے ورنہ زمانے قدیم کا کوئی بھی سکندراعظم کمزور ریاست پر قبضہ کرسکتا تھا۔آج افغانستان کوئی حکومت ادارہ اورانتظامیہ نہیں ہے گزشتہ تین ہفتوں سے ملک کا کوئی حکمران نہیں ہے۔آج کابل ایئرپورٹ پر جہازوں کو اُڑانے اور اتارنے کے لئے ماہرین نہیں ہیں۔جس کیلئے ترکی اور قطری عملہ مانگنا پڑا ہے۔وہ افغانستان جو کل تک ہندوستان پر حملہ آوروں کا گزرگاہ اور آماجگاہ تھا۔جو ہندوستان کے حکمرانوں کو کنٹرول کیا کرتا تھا۔جس نے حملہ آور غوری، غزنوی، خلجی، تخلیقی، سوری، نادری، دورائی، مغلیہ حکمرانوں ابدالی پیدا کئے تھے وہ آج بے یارومددگار دوسروں پر انحصار کر رہا ہے۔آج اس کو اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے جس کو امریکی جنگوں کے جہادیوں اور فسادیوں نے تباہ وبرباد کردیا ہے کہ جس کا نام سن کر لوگ توبہ توبہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔جنہوں نے دین اسلام کے نام پر پرائی جنگیں لڑی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں افغان ترک وطن ہو کر دنیا بھر میں دربدر گھوم رہے ہیں جس کا ذمہ دار وہ تمام جہادی اور فسادی ہیں جنہوں نے پرائی جنگوں کے لیے جہاد کا نام استعمال کیا کہ آج افغانستان تباہ وبرباد ہوچکا ہے۔بہرکیف افغانستان میں1978میں انقلاب ثور لایا گیا جس کے پہلے سربراہ نور محمد تھے جس نے افغانستان میں جاری صدیوں کی بادشاہت اور آمریت کو ختم کرکے ایک سوشلسٹ ریاست بنا دی جو مغربی طاقتوں کو ناگوار گزرا جنہوں نے افغانستان کی ایک اعتدال پسند اور ترقی پسند حکومت کے خلاف جہادی فساد کھڑا کیا جس پر بے تحاشہ دولت خرچ کی گئی جو آخرکار1989میں جنیوا معاہدہ کے تحت روسی فوج کے انخلاء کا باعث بنا جس کے بعد افغانستان میں مسلسل گزشتہ تیس سالوں سے خون وخرابہ جاری ہے جس میں اب تک دو ڈھائی ملین افغان مارے جاچکے ہیںجبکہ چار ملین ہجرت کرچکے ہیں جس سے پاکستان افغان مہاجرین کی وجہ سے ایک منی افغانستان بن چکا ہے۔جو پاکستان پر بہت بڑا بوجھ بنا ہوا جس نے پاکستان میں اسلحے اور ڈرگ کاروبار کو فروغ دیا ہے۔کراچی جیسا ترقی یافتہ شہر قتل وغارت کی آماجگاہ بن چکا ہے۔افغانستان میں گلبادئیوں، ربائیوں، کرکزئیوں اور غنیوں کی حکومتیں بنتی اور ہٹتی رہی ہیں جن کا آخرکار خاتمہ طالبان نے اپنی مسلسل40سالہ مزاحمت کاری سے کیا کہ افغانستان کا حکمران غنی ملک چھوڑ کر بھاگ گیا جس کی تین لاکھ فوج طالبان کے تیس ہزار فوج کے سامنے بے بس ہوکر بھاگ نکلی۔جس سے ثابت ہوا کہ کرایہ کی فوج اور حکومت زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکتی ہے چاہے وہ کوئی بھی ملک ہو ملک کو بچانے کے لیے قومی حکومت اور فوج درکار ہے جو افغانستان میں نہیں تھی جس کی وجہ سے افغانستان دنیا کا کمزور ترین ملک بن چکا ہے۔
جس کا ہر ادارہ درہم برہم ہوچکا ہے جو ایک معجزہ ہوگا اگر طالبان دوبارہ افغانستان تعمیرنو سے ایک متحدہ ملک بنالیں گے جس کا وجود اب استحکام سے قائم ہوگا انتقام نہیں بہرحال،افغانستان کا فی الحال حکومت سازی کا نام نہیں آیا ہے مگر افغانستان اب امارات اسلامیہ کہلائے گی جس کا سربراہ کوئی سلطان یا خلیفہ ہوگا یا پھر ایرانی طرز کی ڈیموکریسی حکومت ہوگی جس کا سربراہ ایرانی آیت اللہ کے طرح سپریم لیڈر ہوگا۔جس کے لیے طالبان کے سربراہ حیبت اللہ کا نام آرہا ہے جو آئندہ افغانستان کا سپریم لیڈر ہوگا جو ایک غیر منتخب سربراہ ہوگا جس کو منتخب یا غیر منتخب صدر اور وزیراعظم جواب دہ ہونگے جن کا درجہ ایرانی آیت اللہ یا ویٹی کان کے پوپ کا ہوگا۔جو پوری مسلم امہ کا سپریم لیڈر کہلائے گا جس طرح آیت اللہ پوری شیعہ مسلم کمیونٹی کا سپریم لیڈر کہلاتا ہے جن کا ابھی تک عراقی اور ایرانی دو آیت اللہ لیڈر میں جنگ جاری ہے تو شیعہ کمیونٹی کا شخص واحد کون آیت اللہ ہوگا۔اسی طرح اگر افغانستان کے خلیفہ یا سپریم لیڈر کا اعلان کیا تو ان کا بھی پوری سنی مسلم دنیا میں واحد لیڈر کا نام آئے گا۔جن کے سامنے تمام بادشاہ، صدر، وزیراعظم سرگوں ہونگے۔جس کا فیصلہ مستقبل میں ہونے جارہا ہے اگر افغان خلافت کامیاب رہی۔قصہ مختصر آج طالبان کے سامنے سخت آزمائش کا وقت ہے جو عہد جدید میں ریاست افغانستان کو چلانا ہے کہ کس طرح موجودہ افغانستان کی ریاست کو دنیا بھر میں تسلیم اور منوایا جائے تاکہ افغانستان کے ساتھ دنیا بھر کے سیاسی، معاشی اور سماجی رشتے قائم رہیں جن کو اب فتح مکہ کی طرح دشمنوں کو معاف کرنا پڑیگااور صلح حدیبیہ کی طرح کافروں سے علم حاصل کرنا ہوگا تاکہ افغانستان کے تمام مسائل حل ہوپائیں جو ایک جدید ریاست کا باعث بنیںلہٰذا سب سے پہلے افغانستان میں آزادی اور خودمختاری کے ساتھ ساتھ اصلاحات کا نفاذ ہو جس کے لیے چین یا ترکی دونوں امن کی ضمانت لیں گے تاکہ ان کی سرمایہ کاری مزید خانہ جنگی کی نذر نہ ہوجائے جس پر افغانستان انحصار کررہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here