میرے اخبار کے گزشتہ شمارے میں شبیر گل کی ایک تحریر بعنوان “جہالت اور کفریہ عقائد ” شائع ہوئی ہے۔ اس کی اشاعت کے بعد مجھ سے متعدد افراد نے رابطہ کیا اور اس تحریر کی سنگینی پر سخت تنقید کی۔ میں حلفیہ اعتراف کرتا ہوں کہ اس تحریر کے مشمولات میرے مطالعے میں نہیں آئے تھے ورنہ ایسی تحریر میرے اخبار میں شائع نہیں ہو سکتی تھی۔ اس دل آزار، لغو، نامناسب اور ناپسندیدہ تحریر کی اشاعت پر معذرت خواہ ہوں۔ واضح رہے کہ اس تحریر میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے کسی طرح اتفاق نہیں کرتا اور نہ ہی امیر اہل سنت مولانا محمد الیاس قادری اور خطیب ملت علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی جیسی مقتدر و محترم شخصیات کی مسلمہ علمی مرتبت میں کوئی ابہام رکھتا ہوں۔ ان شخصیات اور ان تمام لوگوں سے جنھیں اس تحریر سے تکلیف پہنچی، صمیم قلب سے معذرت چاہتا ہوں۔ (الکہف، 18: 65)
”تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر ں) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔”جملہ اولیاء اکرام بشمول حضور غوث الاعظم کا تذکرہ کرتے ہوئے عموماً ہمارے زیرِ نظر اْن کی کرامات ہوتی ہیں اور ہم ان کرامات سے ہی کسی ولی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں صحیح اور درست اسلوب یہ ہے کہ ہم صرف اولیاء کاملین کی کرامات تک ہی اپنی نظر کو محدود نہ رکھیں بلکہ اْن کی حیات کے دیگر پہلوئوں کا بھی مطالعہ کریں کہ اْن کا علمی، فکری، معاشرتی، سیاسی اور عوام الناس کی خیرو بھلائی کے ضمن میں کیا کردار ہے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ پیغمبروں کے بعد اولیاء کرام نے اسلام کی تبلیغ اور پھیلانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان نیک بندوں نے اللہ کے اور رسول کے احکامات عوام کی اکثریت تک پہنچائے اور ان کو اللہ کی وحدانیت اور قادر مطلق ہونے کا یقین دلایا۔ اسلامی تاریخ میں لاتعداد اَولیاء کرام گزرے ہیں اور ان کی کرامات کَشافات کی تفصیلات موجود ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے مشہور کتاب تذکر الاولیاء ہے جس کو 800 سال پیشتر ایک ولی اللہ حضرت شیخ فرید الدین عطار نے تحریر کیا ہے۔ اس میں آپ نے تقریباً 95 جیّد اَولیاء کرام اور ان کی کرامات تفصیل سے بیان کی ہیں۔آپ اس انمول، معلومات سے پْر کتاب کا مطالعہ کرینگے تو علم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے زیادہ تر اَولیاء کرام افغانستان، ایران، عراق و شام میں پیدا کئے تھے۔ برصغیر میں جو جیّد اولیاء کرام گزرے ہیں وہ بھی زیادہ تر مشرق وسطیٰ سے ہی تشریف لائے تھے۔ ہندوستان میں بابا تاج الدین، حضرت نظام الدین اَولیا، خواجہ معین الدین چشتی، پاکستان میں داتا صاحب اور ملتان، جلال پور شریف اور اوچھ شریف میں جن اَولیاء کرام کے مزارات ہیں ان سب کا تعلق بھی وسط ایشیا سے ہی رہا ہے۔برصغیر کے مسلمان پیری مْریدی کے بہت قائل ہیں اور آپ نے دیکھا ہے جب کسی پیر یا وَلی اَللہ کا عْرس منایا جاتا ہے تو ہزاروں بلکہ بعض جگہوں پر لاکھوں لوگ جمع ہوجاتے ہیں، چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ دیکھئے ولی اللہ کا رتبہ اور مرتبہ اپنی جگہ ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور ان کی معرفت، وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دْعا کی جاسکتی ہے ورنہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے کہ اگر ان کی قبر پر مکھی بیٹھ جائے تو یہ اس کو نہیں اْڑا سکتے اور اگر مکھی کوئی چیز لے کر اْڑ جائے تو اس سے چھین نہیں سکتے۔آج آپ کی خدمت میں پیروں کے پیر، غوث اعظم حضرت عبدالقادر جیلانی کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ برصغیر کا ہر مسلمان ان کی کرامات و رتبے سے واقف ہے اور قائل ہے، بہت سے لوگ اپنے نام کے آگے آپ کے اسم مْبارک کی نسبت سے جیلانی یا قادری لکھتے ہیں۔کلام مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” سن لو! بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم”۔ (سورہ یونس، آیت 62 )۔ اور ایک جگہ اللہ نے فرمایا ہے ”تم (رسولۖ) فرمادو کہ فضل تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے دیدے”۔ (سورہ ال عمران، آیت 73 )۔
غوث اعظم کاپورا نام عبدالقادر، کنیت ابو محمد اور القابات محی الدین، غوث الاعظم وغیرہ ہیں۔ آپ 470 ہجری میں بغداد کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے اور 561 میں بغداد ہی میں وصال پایا۔ آپ کا مزار بغداد میں ہی ہے۔ لفظ غوث کے لغوی معنی ہیں فریاد پہنچانے والا یا سننے والا ہے اور کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت آپ کو غریبوں، مجبوروں، بے کسوں اور حاجت مندوں کا مددگار، ہمدرد اور سننے والا سمجھتی ہے اس لئے آپ کو غوث اعظم کہتے ہیں۔ برصغیر کے مسلمان آپ کو پیرانِ پیر دستگیر کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں۔ والد کی طرف سے آپ کا نسب حضرت اِمام حسن سے ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے آپ کا نسب حضرت اِمام حسین سے ملتا ہے۔ آپ کے والدین اور ان کے جدِّامجد جیلان کے علماء اور مشائخ میں سے تھے اور بہت عزّت و تکریم کے حامل تھے۔ اللہ پاک تمام مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ، اسکے پیغمبران اور اولیاء کرام کی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے (امین)
٭٭٭