لندن میں مقیم پاکستانی شاعرہ محترمہ فرزانہ فرحت صاحبہ کے تا حال چار شعری مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ و پیراستہ ہو چکے ہیں۔ بدلتی شام کے سائے، خواب زندگی، آنسو، اور فصلِ آرزو۔ انہوں نے مجھے یہ مجموعے مرحمت فرمائے اور تبصرہ کی خواستگار ہوئیں،ان کی شاعری اتنی سادہ و سلیس ہے کہ از دل خیزد و بر دل ریزد والا معاملہ ہے۔ چونکہ ان کی شاعری خوابوں کی تمثیل و تمثال ہے اِس لیے میں نے انہیں خوابوں کی شاعرہ کہا ہے۔ مرزا غالب کا مشہور مصرع ہے ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں۔ وہ نزولِ شاعری کا سبب اپنے شہید بھائی ڈاکٹر شمس الحق کی اندوہناک شہادت کو قرار دیتی ہیں۔ دہشت گردی کے اِس فاجع جانکاہ نے ان کی روح تک کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ ان کی نظم میرے شہید ایک بہن کی اپنے بھائی سے بے لوث محبت اور اس کی جدائی میں دلدوز نوحہ ہے اور قرآنِ مجید کی آیتِ مبارکہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں سے کاس صبر و رضا بھرتے ہوئے کہتی ہیں!
جسے شہید کا رتبہ نصیب ہوتا ہے
مجھے یقیں ہے خدا کا حبیب ہوتا ہے
فرزانہ فرحت کی شاعری میں خواب اک استعارہ ہے۔ یہ وہ خواب نہیں جو بند آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے بلکہ یہ وہ خواب ہے جو کھلی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے ۔کہتی ہیں !!
میں نے تو کھلی آنکھ سے دیکھے ہیں کئی خواب
کیوں نیند میں سپنا کوئی سندر نہیں دیکھا
وہ سائل بن کر یہ صدا نہیں لگاتیں کوئی ہے جو مرے خواب کی تعبیر بتائے مجھ کو بلکہ وہ خواب کی تعبیر عزم و عمل کے روپ میں دیکھتی ہیں اور جابجا معاشرے کے ناسوروں ، مذہبی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں اور نعر بے باکانہ لگاتے ہوئے غمِ جاناں کو غمِ دوراں میں بدل دیتی ہیں۔کہتی ہیں!
حاکمِ وقت کو احساس دلایا جائے
خوف ہر دل سے کسی طور مٹایا جائے
سر پہ مزدور کی بیٹی کے یہ چھت رہنے دو
اب غریبوں کے مکانوں کو نہ ڈھایا جائے
کسی عزت کو نہ بازار میں روندے کوئی
اب یہ ذلت کا تماشا نہ دکھایا جائے
موت کے نام کی تحریر نہ لکھے کوئی
خون اب اور نہ گلیوں میں بہایا جائے
ان کے ایک شعری مجموعے کا نام ہی خواب خواب زندگی ہے۔ فانی بدایونی کا ایک مصرع ہے زندگی کاہے کو ہے اک خواب ہے دیوانے کا۔ مگر یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ زندگی خوابِ دیوانہ نہیں بلکہ خوابِ فرزانہ ہے جس کی زندگی کے حقائق پر گہری نظر ہے۔ بقولِ علامہ اقبال
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
ترا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ
خواب خواب زندگی کے پیش لفظ میں فرزانہ فرحت رقم طراز ہیں زندگی کے سفر کی صعوبتیں، اداسیاں ، محرومیاں ، رعنایاں اور مسرتیں رہنما بن کر منزلوں کا پتہ دیتی رہیں۔ خواب خواب زندگی میرے خوابوں کا مجموعہ ہے۔ ایسے خواب جو یاسیت کے بادل برسنے کے بعد قوس قزح کا رنگ پیش کرتے ہیں۔ گویا شاعرہ یاسیت کے گرداب سے نکل کر رجائیت کے ساحل پر کھڑی اب زندگی کی تند و تیز امواج سے بر سرِ پیکار ہے۔ کہتی ہیں
ہمت ہے جواں اور مرا عزم کہ میں نے
حالات کے طوفان سے ڈر کر نہیں دیکھا
خوابوں کی شاعرہ کے خواب ذاتی دکھوں کی داستاں اور انسانی مسائل اور مصائب کا نوحہ بھی ہیں ۔ خواب تین قسم کے ہوتے ہیں۔ روحانی خواب جیسے کہ خوابِ ابراہیمی، طبی یا بدنی خواب جیسے کہ تبخیرِ معدہ کے اثرات، ذہنی کرب یا خواہشات پر مبنی خواب- علمِ نفسیات اور تحلیلِ نفسی کے ماہر سگمنڈ فرائڈ ( Sigmund Freud) کے مطابق خواب انسان کے لاشعور اور تحت الشعور کی پیداوار ہیں۔ انسان جس شئے کو عملی زندگی میں حاصل نہیں کر سکتا وہ خواہش خواب بن جاتی ہے- عظیم شاعری بھی لاشعور کا ثمرہ ہے۔اسی لئے آمد کی شاعری وجدانی اور جاودانی ہوتی ہے اور آورد کی شاعری ہنگامی اور وقتی نعرہ بازی ہے۔ فرزانہ فرحت کے خواب تعبیر کے کشکول لئے دربدر نہیں بھٹکتے بلکہ یہ خواب فطری ، وجدانی اور ذہنی کشاکش اور کشمکش گے مرہونِ منت ہیں۔ آپ تہذیبِ مشرق سے وابستہ اور اخلاقیات و روحانیات سے پیوستہ ہیں۔ اِسی لئے اِن کے احساسات میں پاکیزگی و بالیدگی ہے۔ اِن کی شاعری میں خلوصِ دل کا ساز جو جذبِ اندروں کے سوز اور دلِ کرب زدہ کی آواز ہے اور یہی درد فغاں کا روپ دھار کے صورِ سرافیل کی صورت زلزلہ برپا کرتا ہے۔ کہتی ہیں
اک چنگاری جو اِس دل میں دبی رہتی ہے
اب اِسی آگ سے اک شہر ہے جلنے والا
دن بدل جائے گا اور وقت بدل جائے گا
رات کے بعد نیا دن ہے نکلنے والا
فرزانہ فرحت کی شاعری میں چند مستقل استعارات و تشبیہات استعمال ہوئی ہیں جو ان کے فکری اور جذباتی پس منظر کی عکاسی کرتی ہیں۔مثال کے طور پر ستارہ، شب، لبِ بستہ ، کربلا، خوف، شام، صیاد، غم، آئینہ ، خواب، صحرا، یاس، درد اور اداسییہ الفاظ ان کے دردِ اندروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ان کی چاروں شائع شدہ کتابوں کے عمیق مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا کوئی مشکل کام نہیں کہ زندگی کی تلخیوں اور ذاتی مہجور یوں سے ان کا دل پارہ پارہ ہے۔ ان کے بعض اشعار اِس قدر دلدوز ہیں کہ قاری کی آنکھیں اشکوں سے وضو کرتی ہیں۔ کہتی ہیں
بنی تھی جو کبھی دل پر وہی تصویر رہنے دو
اسی کی یاد میں مجھ کو یونہی دلگیر رہنے دو
ایک اور غزل میں کہتی ہیں
خوشی کے چند لمحے جھٹ اداسی میں بدلتے ہیں
مگر غم ہو تو مدت تک خوشی کے بعد رہتا ہے
ایک اور شعر میں دردِ دل یوں بیاں کرتی ہیں
خوشیوں کا مرے دل سے کوئی رابطہ نہیں
اک غم ہے جس سے ساتھ مرا چھوٹتا نہیں
اِس غم میں غمِ مادرِ وطن سرِ فہرست ہے۔ نظم پردیس میں پاکستان سے ہجرت کر کے لندن میں اقامت کا شدید رنج ہے- وطن سے دوری دردِمہجوری ہے۔ نظم چناب کا کنارہ،اور نظم آزادی حبِ وطن کے تناظر میں لاجواب نظمیں ہیں-
فرزانہ فرحت کا اسلوبِ سخن سادہ و سلیس ہے۔ روانی اور جولانی اِن کے کلام کے خصائص ہیں۔ اردو شاعری میں میر تقی میر، مرزا غالب، سودا، ذوق،میر انیس، مرزا دبیر ، اقبال، جوش، فیض اور فراز کی شاعری پر فارسیت کا غلبہ نمایاں ہے جیسے انگریز شاعر جان ملٹن ( John Milton) کی شاعری پر لاطینی زبان (Latin ) کے اثرات ہیں۔ اردو شاعری میں لغت اور فارسیت سے مبرا روز مرہ کی زبان داغ دہلوی کے ہاں ملتی ہے۔ فرزانہ فرحت کااسلوب ( diction) سادہ و سلیس ہے۔ ڈھونڈنے سے بھی فارسی اضافتیں اور تراکیب نہیں ملتیں۔
احمد فراز نے کہا تھا
رنجش ہی سہی پھر بھی زمانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
فرزانہ فرحت کہتی ہیں
کوئی رنجش کوئی گِلہ سا ہے
تو جو مجھ سے خفا خفا سا ہے
فرزانہ فرحت کی شاعری پر تحقیق ہونی چاہئیے۔ یہ شاعری دو آتشہ ہے۔غمِ ذات بھی اور فکرِ کائنات بھی۔ ان کی ساری شاعری میں یہ رجائیت کا پیغام حرزِ جاں ہے۔ کہتی ہیں
پیار مِل جائے گا فرحت بس اِسی امید پر
اک دیا رکھا ہوا ہے آندھیوں کے درمیاں
جنوری نیو یارک ڈاکٹر مقصود جعفری
٭٭٭