صد شکر اِن ضمیر فروشوں میں ہم نہیں !!!

0
238
سردار محمد نصراللہ

ہزار سانپ رِہ زندگی میں ملتے ہیں
خدا کرے کہ کوئی زیرِ آستیں نہ ملے
وطن عزیز کی تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے اور آج ایک بار پھر عدم اعتماد کے نام پر ہنگامہ برپا ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک ان لوگوں کی جانب سے پیش کی جا رہی ہے جن کے بارے میں کسی شاعر نے خوب کہا ہے !
کتنے دلفریب چہرے تھے احباب کے مگر
پچھتا رہا ہوں ان سے ملمہ اتار کے
تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ مبینہ جمہوری سسٹم میں کئی بار اس طریقہ کار کو آزمایا گیا لیکن کامیابی لانے والوں کو نصیب نہیں ہوئی لیکن اتنا ضرور ہوا کہ لوٹے اس مکروہ کھیل میں ضرور سامنے آئے۔ پاکستان کی سیاست میں لوٹا ازم کا نام نیا نہیں ہے میں دماغی کمزوری کی وجہ سے شاید تاریخ صحی درج نہ کر سکوں کہ ابھی نیا نیا ملک بنا تھا کہ مسلم لیگ کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والا شخص کسی وزارت ، سفارت یا نوٹوں کی جھلک پر اپنا ٹکٹ بیچ کر مخالف گروپ میں شامل ہو گیا اور مسلم لیگ کو شکست ہو گئی ۔ لیکن اتنا معلوم ہوا کہ اس لوٹے کو زندگی میں پھر پزیرائی نہ مل سکی سوشل طور پر نہ اس کو اپنے گھر والوں سے عزت ملی اور نہ ہی برادری میں اور نہ ہی احباب میں اور وہ اسی غم میں مر گیا اور ایسے لعنتی آدمی کا مر جانا ہی بہتر تھا تاکہ لوگوں کو پتا چلا کہ اس کا جنازہ اٹھانے والے بھی چالیس لوگ پورے نہیں تھے۔
قارئین وطن!اپنی سال کی عمر میں بہت سے لوٹے میری نظروں کے سامنے سے گزرے ایوبی دور سے بڑے بڑے لوگ چھوٹے نظر آئے میں خود ایک سیاسی ورکر ہوںجس نے مادرے ملت فاطمہ جناح کے قدموں میں سیاسی شعور حاصل کیا اس دور میں بہت سے رینی گیڈ دیکھے جو پارٹیاں اور نظریے بدلتے رہے اللہ میرا گواہ ہے کہ میں نے ان لوگوں کی کبھی پزیرائی نہیں کی ہمارے سامنے محترمہ بے نظیر کے خلاف عدم آعتماد کا واقعہ ہمارے سامنے ہے شہباز شریف اور مولانا فضل الحق نواز شریف جوبیرون ملک بھگا ہوا ہے کی سربرائی میں بلو بلاول کی ماں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر رہے تھے اور اس کے لئے چھانگا مانگا سجایا ہوا تھا لیکن تمام تر بوٹوں اور اس وقت کے صدر اسحاق خان کی بھر پور حمائیت کے باوجود اس کو کامیاب نہ کر سکے لیکن ضمیر فروشوں کا ایک ہجوم سیاست کے دلالوں کی منڈی میں دیکھنے کو ملے اور اس وقت کی دو سیاسی کارپوریشنز پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کے خلاف ضمیر فروشی کا بازار گرم رکھتے رہے لیکن دونوں پارٹیوں کے سربراہوں کی چھٹی عدم اعتماد کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ برگیڈ کے ڈنڈے کے زور پر ہوئی ہے اور جب بھی اِن لوگوں کی چھٹی ہوتی عوام مٹھایاں بانٹتے تھے ۔ یارانِ سیاست ہم سب جانتے ہیں کہ رفتہ رفتہ یہ سیاسی گروہ مافیا میں تبدیل ہوتے گئے اور نواز شریف اور آصف زرداری اور ان کے گماشتے بیرونی سازشیوں کے آلہ کار بن گئے اور آج یہ لوگ اتنے طاقت ور بن گئے ہیں کہ اپنے آپ کو ریاست سے زیادہ طاقت ور سمجھتے ہیں جس کا مظاہرہ ہم عمران خان وزیر اعظم پاکستان کے خلاف دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری اور بلاول زرداری جس کے ابھی سیاسی دانت بھی نہیں نکلے اور مولانا فضل الحق ایک لمبی قطار ہے احسن اقبال اور نئیر بخاری جیسے منشیوں کی جو امریکہ کی ایما پر پاکستان کی اس حکومت کو گرا رہے ہیں جس نے دنیا میں پاکستان کے وقار اور حمییت کو بلند کیا ہے ۔

قارئین وطن ! افسوس کہ ایسا ایسا ضمیر فروش وطن کے غداروں شہباز شریف، بلاول زرداری اور ملا فضل الحق نے پٹاری سے راجہ ریاض کی سربراہی میں نکالے ہیں کے پوری قوم ششدر ہو گئی ہے کہ بروٹس یو ٹو افسوس اس ضمیر فروشوں کے جتھے میں تین خواتین بھی شامل ہیں کوئی نوٹوں کی عوض بکے کوئی ٹکٹ کی عوض غرض جس کی قیمت جہاں لگی اتنے میں بک گیا ۔ صد صد شکر اِن بے ضمیروں میں ہم نہیں۔ میں کل سے مختلف ٹی وی پروگراموں میں راجہ ریاض کو سن رہا ہوں کہ عمران خان کو ہم لوگوں پر ضمیر فروشی کا الزام نہیں لگانا چائیے ہم لوگ شریف لوگ ہیں شریف لوگوں پر مجھ کو اتنی ہنسی آئی کہ اگر یہ شریف لوگ ہیں تو بدمعاش چور اچکے کیسے ہوں گے ۔ راجہ ریاض اور اس کے حواریوں کہ شہباز بلاول اور ملا کی سوئیٹ ٹاک میں اس بات کا اندازہ نہیں کہ اس ضمیر فروشی کی کتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی سوشل طور پر ان لوگوں کا کیا حال ہو گا ان لوگوں کے جنازے اٹھانے والے نہیں ہوں گے جیسے جیسے یہ سندھ ہاس سے نکل کر اپنے حلقوں میں پہنچیں گے دیکھ لیجئے گا ان کا کیا حال ان کے ووٹر کرتے ہیں کہ ووٹر تو سارے عمران خان اور تحریک انصاف کے نظرئیے کے ہیں ۔ ان غداروں کو شائید اس بات کا علم نہیں کہ یہ وہ دور نہیں چھانگا مانگا کا جہاں اخباروں میں من پسند خبریں چھپوا کر معاملے کو ادھر ادھر کر دیا جاتا تھا آج کا دور سوشل میڈیا کا ہے تم چھینک ماروں تو پوری دنیا سنتی ہے ویسے دور جانے کی بات نہیں ہے لنڈن میں چھپے نواز شریف اور اس کے خاندان کے افراد کا حال دیکھ لو جہاں جاتا ہے گندی سے گندی گالیاں سننے کو ملتی ہیں لیکن کسی نے صحی کہا ہے کہ بے غیرتوں کو اس کا اثر نہیں ہوتا میں ان ضمیر فروشوں کو یہی مشورہ دوں گا کہ ابھی بھی وقت ہے خدارا اپنے بچوں کے لئے ان کے مستقبل کے لئے واپس چلے جا عمران خان بڑے دل کا مالک ہے تمھاری غلطی کو در گزر کر دے گا یہ جو تمھہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں کام ہونے کے بعد ٹشو کے طور پر کچرے میں پھینک دیں گے اور تم لوٹا اور لوٹے رہو گے۔

قارئین وطن! ماضی کے مقابلہ میں بے نظیر اور نواز شریف کے خلاف ہونے والی عدم اعتماد کی تحریکوں میں ان کے پست حوصلے دیکھے لیکن اس بار مافیا کی یلگار کے باوجود پیچھے بیرونی ہاتھ سی آئی اے ، بھارتی را اور ولائیتی ایم سیکس کے عمران خان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ پاکستان کے کروڑ لوگوں کے لئے ان کے وقار اور عزت کے لئے اسلام کی سر بلندی کے لئیے لڑنے کے لئے تیار ہے ۔ اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ان طاغوتی قوتوں کو شکست دیں ۔ عوام کوچاہئے کہ مارچ والے جلسے میں بھر پور شرکت کرکے دنیا کو بتا دیں کہ پاکستان بدل گیا ہے اب ہمیں بے نڈر قیادت کی ضرورت ہے جس کا نام عمران خان ہے اگر وردی والے بھی کسی قسم کی مداخلت کرتے ہیں عمران خان کی راہ میں تو ان کے خلاف بھی سراپا احتجاج بن جائیں ۔ اب مافیا اور ان کے سہولت کاروں سے نجات کا وقت آگیا ہے اب صرف سیاست دانوں کی حکومت ہو گی پاکستان پر چوروں ڈاکوں اور خائین کی نہیں پاکستان زندہ باد عمران خان زندہ باد۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here