ارادہ تو یہ تھا کہ امریکہ میں بڑھتی ہوئی فائرنگ و دہشتگردی کے حوالے سے اور گن کنٹرول اور بائیڈن کے اس حوالے سے متعلقہ قانونی ترمیم پر اظہار خیال کیا جائے مگر پاکستان میں ہماری شعوری زندگی کی بدترین، بے اصول سیاست کے کھیل اور اس کے نتیجے میں ملک کی معاشی، معاشرتی اور عوام کی حالت زار پر صورتحال کی وجہ سے سوچ کا زاویہ پھر وطن عزیز کی جانب ہی مرکوز ہو جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت ختم کئے جانے کے بعد سے سیاسی بے ضابطگیوں، آئین و قانون سے ماورائی، عوام کی بڑھتی ہوئی زبوں حالی اور سونے پہ سہاگہ وزیراعظم سمیت حکومتی وزراء کے لائو لشکر کے بیرونی دورے، پاکستان کی زبوں حالی پر مختلف حیلوں، بہانوں، آئی ایم ایف کے بڑھتے ہوئے دبائو، عوام کی کمر توڑتی ہوئی مہنگائی کسیاتھ ان حکومتی اللوں تللوں سے خزانے مزید نزاع و کمزوری کا باعث بن رہے ہیں۔ دور ایوبی کے نوجوان وزیر ذوالفقار علی بھٹو ایک وفد کے ہمراہ سوئیڈن امداد لینے گئے، وفد کے ارکان مقررہ وقت پر میٹنگ روم پہنچے لیکن سوئیڈن کے وزیراعظم اولف پالمے غائب تھے۔ جب بھٹو کو انتظار کرتے ہوئے پانچ منٹ سے زائد ہوئے تو انہوں نے پروٹوکول آفیسر سے احتجاج کیا۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور اولف پالمے اندر داخل ہوئے لیکن اس حالت میں کہ حانپ رہے تھے، ٹائی کی ناٹ ڈھیلی تھی اور ماتھے پر پسینہ تھا۔ پالمے نے آتے ہی سب سے معذرت کی اور لیٹ ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے انکشاف کیا کہ وفد (پاکستانی) کے ارکان کی گاڑیوں کی وجہ سے انہیں پارکنگ میں جگہ نہیں ملی اس لئے انہیں گاڑی کافی دور کھڑی کرنا پڑی۔ ملاقات کے بعد جب بھٹو صاحب ہوٹل واپس پہنچے تو انہوں نے وفد میں شامل ایک سینئر سفارتکار سے پوچھا، بیگ صاحب میرا خیال ہے اولف پالمے ہمیں کچھ سمجھانا چاہتے تھے”۔ اس وقت کے سمجھدار اور منہ پھٹ سفارتکار نے کہا جی سر! وہ ہمیں سمجھانا چاہتے تھے کہ آپ لوگ 27 افراد کیساتھ شاندار گاڑیوں میں جس ملک سے امداد لینے آئے ہیں، اس کے تو وزیراعظم کو بھی جگہ ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ بھٹو نے سادگی سے پوچھا، ایسا کیوں؟ سفارتکار نے جواب دیا، یہ سوئیڈن ہے سر پاکستان نہیں۔ یہ امداد دیتا ہے اور پاکستان امداد لیتا ہے۔ موجودہ وزیراعظم اور آسٹریٹی کے نعرے کے حامل کا دورہ ترکی یوں تو خراب معاشی حالات کے تناظر میں کیا گیا لیکن وسیع تر اشتہار بازی، 54 افراد پر مشتمل قافلے کو خصوصی طیارے کے ذریعے لے جانا، فائیو اسٹار میں ٹھہرانا، کس جانب اشارہ کر رہا ہے ۔ اس دورے کے فوائد کا تو کچھ ظاہر نہیں لیکن اس کا اربوں کا نقصان نقد عوام سے وصول کئے ہوئے قومی خزانے سے خرچ کیا گیا۔ یوں تو یہ شاہانہ ٹھاٹ باٹ برسوں سے جاری ہیں لیکن ایسے وقت کہ جب پاکستانی معیشت کی زوال پذیری انتہاء کو پہنچ گئی ہے، زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی، شرح نمو ،برآمدات، روپے کی قدر میں کمی، اسٹاک مارکیٹ میں تنزلی اور موجودہ بجٹ میں اعداد و شمار کے گورکھ دھندے و عوام کو زمین سے لگانے کی کیفیت میں یہ سب جائز ہے۔ بات یہ ہے کہ جسے پیا چاہے وہی سہاگن اور یہ بات سورج کی طرح روشن ہے کہ ریاست پاکستان کا پیا کون ہے؟
عمران خان پونے چار سال پیا کامن بھایا رہا اور ریاستی حمایت کیساتھ کامیابی کے جھنڈے گاڑتا رہا۔ اس وقت کی اپوزیشن کی تمام تر کاوشوں، کوششوں کے باوجود حکومت کے معاملات چلاتا رہا لیکن جیسے ہی پیا کی چاہت تبدیل ہوئی، ساری اچھائیاں اوجھل ہو گئیں اور تقدیر ان پر مہربان ہو گئی جنہیں پیا کی چاہت مل گئی۔ درحقیقت یہ سار اکھیل برسوں سے اسی طرح جاری ہے۔ کل تک جو الزامات و اعتراض عمران پر لگتے تھے یعنی سلیکٹڈ، بدنظمی و بد انتظامی، معشیت کی بدحالی، عوام کی ابتر حالت زار، حد سے زیادہ کابینہ اور مصارف کیساتھ یکطرفہ فیصلے وغیرہ، وہی تمام خوبیاں موجودہ امپورٹڈ حکمرانوں میں بدرجۂ اُتم موجود ہیں بلکہ ان کی خوش نصیبی کا تو یہ حال ہے کہ جس روز فرد جرم عائد ہونی تھی اس دن وزارت عظمیٰ کا ہماسر پر بیٹھ گیا، دو ماہ میں متعدد سماعتوں کے باوجود فرد جرم ہوا میں ہی معلق ہے اور متعلقہ ادارہ بھی بوجوہ معاملے کو بڑھانے سے لیت و لعل کر رہا ہے۔ آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے وہ تمام اقدامات بروئے عمل لائے جا رہے ہیں جو موجودہ حکمرانوں کے حق میں ہوں، پنجاب میں حکومت سازی سے لے کر نیب ترامیم، ای وی ایم، اوورسیز پاکستانیوں کا حق رائے دہی تک کے معاملات اس کی شہادت ہیں۔
عمران خان اقتدار سے محرومی کا پھل تو چکھ چکا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے عزم پر ڈٹا ہوا ہے، عوام کی بھرپور حمایت و ہمدردی اور تاریخ ساز جلسوں کے باوجود محض پیا کی چاہت نہ ہونے کے ناطے 25 مئی کو جو کچھ ہوا اس سے آپ سب واقف ہیں۔ اردو کا ایک محاورہ ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس، ریاست پاکستان میں لاٹھی جس ستون کے ہاتھ ہے باقی ستون اس کے سامنے بھینس ہیں اور موجودہ حالات اس کا مظہر ہیں معاملات سیاسی ہوں، انتظامی ہوں یا آئینی و عدالتی، لاٹھی بردار کی منشاء و مرضی سے بڑھتے ہیں یا فیصل ہوتے ہیں۔ یہ مثال ہی لے لیں کہ سب سے بڑی عدالت میں عرض گذاری کے باوجود عمران خان اگلی مارچ و دھرنے کیلئے شش و پنج کی کیفیت میں ہے۔ شنید ہے کہ ملکی حالات کی تیزی سے بڑھتی ہوئی صورتحال پر لاٹھی والے سوچ میں ہیں اور بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے بہت سے متبادل پر غور و خوض کیا جا رہا ہے۔
شیخ رشید جو خود کو گیٹ نمبر 4 کی پیداوار اور مقتدرین کے وفادار ارو رازدار، دروں خانہ کہتے ہیں آئے دن اس حوالے سے نئے انکشافات کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی معاملات کی پیش روئی میں عمران کے عزم و استقامت اور چوروں، ڈاکوئوں سے عدم افہام و تفہیم کا حوالہ دیکر ہر صورت عمران کا ساتھ دینے کا اعادہ کرتے ہیں۔ ہمارے ذرائع کے مطابق دن بہ دن تیزی سے بگڑتے ہوئے سیاسی و معاشی حالات کے باعث لاٹھی بردار بہت سے آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔ چوہدری خاندان کے مثالی اتحاد میں دراڑ، باپ کے معاملات اور متحدہ و پی پی کے معاہدوں کی پیشرفت میں تاخیر و تعطل اہم اشارے ہیں۔ تاہم جو کچھ ہونا ہے وہ ان کی مرضی سے ہوگا جن کے ہاتھ میں لاٹھی ہے اور بھینس تو ہماری سیاسی اشرافیہ ہے۔ جو بھی ہونا ہے وہ عوام و پاکستان کے حق میں بہتر ہو۔
٭٭٭