یہ سطور میں دنیا کے اس مقدس شہر سیتحریر کر رہا ہوں جہاں سے عرش کے ٹھکرائے ہووں کو امان مل جاتی ہے ۔ جہاں سے نابیناوں کو بینائی ملتی ہے ۔ مردوں کو حیات نو ملتی ہے ۔ جہاں فقیر امیر ہوجاتے ہیں ۔ جہاں لمحوں میں جہنمی جنتی بن جاتے ہیں ۔ جہاں خیرات لینے کے لئے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ جہاں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا سارے امام ،بتول بیبیاں اپنی ارواح کیساتھ زیارت کو آتی ہیں ۔ جہاں 24گھنٹے میں کوئی نہ کوئی کو نہ ایسا ہوتا ہے۔ جہاں سے یاحسین کی آواز آرہی ہوتی ہے ۔ جہاں نوری خاکیوں کے کفش بردار نظر آتے ہیں ۔ جس سرزمین پر بسنے والے خون کی حرارت کو صدیاں کم نہ کر سکیں ۔ جس سرزمین میں خون رسول آج بھی سمیل کیا جاسکتا ہے ۔ جب دنیا کی مارکیٹوں میں اکثر زمینوں کی سونا نما اجناس پڑی رہتی ہیں وہاں اس سرزمیں کی مٹی سونے اور ڈائمنڈ سے زیادہ قیتمی بکتی ہے ۔ جہاں نیاز حسین اور سبیل غازی کے فری بازار لگتے ہیں ،بے کفن کی نگری کے کفن دنیا بھر میں جاتے ہیں ۔ جہاں کی مٹی میں شفا ہے ۔ جہاں جانے کے بعدجنت کی خواہش نہیں رہتی ہے ۔ جہاں استغاثہ حسینی کی آواز اب بھی محسوس ہوتی ہے جہاں وفائے عباس کے چرچے آج بھی زبان زدعام ہیں ۔ جہاں دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی ہوئی ۔ جہاں نواسہ رسول کی لاش تین دن تک بے گوروکفن پڑی رہی ۔ جہاں چھ ماہ کے بچے کو مارا گیا ۔ جہاں سے رسولزادیاں قید ی بنائی گئیں ۔ جہاں 30ہزار پر 130کا غلبہ ہوا ۔ جہاں ارادہ ہتھیاروں سے جیت گیا۔ جہاں شجاعت کے جوہر دکھائے گئے جہاں اخلاق نبوی کا اظہا ر کیا گیا ۔ جہاں پیاسوں نے سیرابوں کو شکست دی ،بھوکوں نے سیروں کو پچھاڑا ،جہاں معصوم بچوں کے تبسم کا مقابلہ اسلحہ نہ کر سکا ۔ جہاں کو ئی لمحہ ایسا نہیں کہ رونق نہ ہو ۔ جہاں ہر روز عاشور لگتا ہے ۔ جسکی زمین معلی ہے ۔ عرش کربلا کے علاوہ کوئی زمین معلی نہیں ہے۔ جہاں کے خوان نیاز سے سرفرازی کے لئے مذہب وفرقہ کی قید نہیں ہے ۔جس سرزمین کو دہشت گردوں اور بدبختوں کے علاوہ ہر ایک اپنی سرزمین سمجھتا ہے ، جہاں کینسر کے مریض شفا لے کے اٹھتے ہیں ،جہاں بغیر دوا کے دل کی شریانیں کھل جاتی ہیں ۔ جہاں نابینا بینائی لے کر اٹھتے ہیں ۔ جہاں فالج والے بھاگتے واپس آتے ہیں ۔ جہاں برین ہیمرج کے لاعلاج مریض عقل وخرد کا امتیاز لے کر آتے ہیں ۔ جہاں سے ذبابیطس اور بلڈ پریشر کا علاج ہوتا ہے ۔ جہاں مردوں کو بھی زندگی ملتی ہے ۔ جہاں کی زیارت کا ثواب حج وعمرہ سے زیادہ ہے ۔ جہاں اسلام کی حدود قید وپر حصار کھینچا گیا جہاں بادشاہ ،صدر ،وزیراعظم ،وزیر ،امیر ،نواب ،وڈیرے ،بلکہ ہر قسم کے بڑے انسان پا برہنہ چلتے ہیں ۔ جہاں کے لنگر کا مقابلہ دنیا کی ساری حکومتیں نہیں کر سکتی ہیں۔ جہاں خود بخود آنسو نکلتے ہیں۔ جہاں سے بانجھ کو بھی اللہ اولاد دیتا ہے ۔(جاری ہے)
جہاں قسمت بنتی ہے ۔ جہاں مقدر جاگتا ہے ۔ جہاں عرشی وفرشی بے امتیاز چلتے ہیں ۔ جہاں سے کوئی خالی نہیں پلٹتا ہے ۔ جہاں کی مٹی کو ازواج نبی تبرک کے طور پر رکھتیں ۔میرا حالیہ سفر بالکل پلینڈ نہ تھا ۔ صدام کے زوال کے بعد تقریبا ہر سال عراق جاتا ہوں ۔ اس بار جانا نہ ہو سکا تھا ۔
بحمد اللہ:۔ اللہ نے معجزانہ طورپر توفیق دے دی ۔ بڑے اطمینان سے روانہ ہوا۔ جب میں کربلا پہنچا تو دورسے کربلا کو دیکھتے ہی آنسووں کی برسات جاری ہوگئی۔ بلکہ جب نجف ائیرپورٹ پر اترا تھا اور آفیسر نے مجھ سے کہا تھا کربلا جاوگے ؟توبے ساختہ میری چیخ نکل گئی۔
قارئین کربلا میں وہ غم ،درد ،رنج والم پنہاں ہے ،کہ نام آتے ہی غریب زہرا کی غربت آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے ۔بچپن س میری ماں نے مجھے ذکر حسین سے آشنا کیا ۔ ہمارے علاقے میں جب کبھی مجلس حسین ہوتی تو نقارہ بجتا تھا اور ہم اسکول کے بعد وہاں پید ل یا کسی بھی سواری پر چلے جاتے تھے ۔ ہمارے علاقے میں پسماندگی کے سبب کیونکہ وسائل آمدورفت کی کمی ہوتی تھی تو انتظار کئے بغیر ہم کلاس فیلوز مجلس حسین میں پہنچ جاتے تھے ۔
جب بھی کربلا پہنچتا ہوں تو ماں کی تربیت کے غریب زہرا پر سلام کرتا ہوں ۔ مجھے یاد نہیں میں کبھی بھی کربلا چپلوں کے علاوہ گیاہوں سامان تو میں نے برج کربلا ہوٹل میں ہی میں رکھ دیا تھا ۔ میں نے جب کربلا حاضری دی تو عصر کا وقت تھا۔گراج جہاں ٹیکسی نے اتارا تھا وہاں سے سیدھا راستہ علمدار کر بلا سرکار غازی عباس کے روضہ پر جاتا تھا ۔
جاتے ہی سلام عرض کیا ۔مغربین کی نماز حرم میں ہی ادا کی۔ وضو کاظمین شریفین سے ہی کر لیا تھا ۔ شدت جذبات میں نیند کا آنا ممکن ہی نہ تھا برسے پہلے تو راہ کربلا ہی میں 1000بار امام حسین پر ۔ پھر اتنا ہی سرکا رغازی اور اتنا ہی شہدا کربلا سلام پیش کیا ۔ سالہا سال سے یہ عادت ہوگئی ہے ۔
میں معصوم ہستیوں پر ایک بار نہیں کم ازکم ہزار بار سلام پیش کرتا ہوں اور نیت یہ رکھتا ہو ں کہ میری اگر ہزار مشکل بھی ہو گی تو ان پر کئے گئے سلام سے چلی جائے گی ۔ اس لئے کہ سلام کا کرنا سنت اور جواب دینا واجب ہے ۔
معصوم اور شہید جواب تو اتنی بار ہی دینگے جب ہر شہید کر بلا 1000بار سخاوت حسین جیسے روسیاہ کو جوابِ سلام دے گا تو فرشتگان خدا کے پاس تکلیف کو راحت ،مشکل کو آسانی ، عذاب کو ثواب، پکڑ کوخلاصی ، مرض کو شفا ، حادثے کو حفاظت ،بے روزگاری کو روزگار غم کو خوشی اور موت کو حیات میں بدلنے کا بہترین موقعہ مل جائیگا ۔
میں یہ بھی سوچتا ہوں میرے کم وبیش ہزار وں احباب جب سنیں گے کہ میں کربلا یا زیارات مقامات مقدسہ پر گیا ہوں تو خواہش پیدا ہوگی کہ ہمارا بھی سلام پہنچے تو میں ہزاروں کی نیابت میں یہ سلام پہنچاتا ہوں ۔ نہ یہ کوئی حدیث ہے نہ روایت یہ میرا اپنا سلیقہ عقیدت ہے ۔ جسکے میں نے ہزاروں فائدے دیکھے ہیں ۔
سرکار غازی کے روضے پر زیارت پڑھی ۔ سقائے بنی ہاشم بغیر بازووں کے دفن ہیں ۔ بازو کٹ گئے تھے ۔ بازووں کے کٹنے کی جگہ مشکیزے میں تیر لگنے کی جگہ ، غازی کے گرنے کی جگہ بہت محفوظ کی گئی ہے ۔
حضرت عباس اور امام حسین کے روضہ کے درمیان 378میٹر کا فاصلہ ہے ، اتنا ہی فاصلہ صفا و مروہ کا ہے ۔
میرے دوست ابو کرار حیدری عراقی نے مجھے زیارات نجف سامرہ، بلند، کاظمین اور کربلا میں کمپنی دی ، وہ ہر طرف مجھے اپنی گاڑی سے لے گئے ،قیام و طعام کا اہتمام میرے برخوردار علامہ صفدر عباس سابقی نے کیا۔حرم حضرت عباس اور حرم حضرت امام حسین میں مجلس پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔زیارات کربلا میں میری معاونت مولانا سید علی نقی زیدی کربلائی نے کی۔روضہ حضرت حر، روضہ عون بن حر، روضہ محمد و ابراہیم طفلان مسلم بمقام مسیب ، حضرت عباس کے بازو گرنے کی جگہ، مقام علی اکبر، مقام علی اصغر، مقام امام زمانہ ، خیام حسینی کی زیارات کا شرف حاصل ہوا۔طلہ زینبیہ دیکھا تو چیخیں نکل گئیں جہاں سیدہ زینب ستر قدموں پر اپنے بھائی کو شہید ہوتے دیکھتی رہیں اور دہائیاں دیتی رہیں۔ اس مضمون کی تھیم اس وقت ذہن میں آئی مقام امام جعفر صادق پر یہ جملہ پڑھاکہ اے فرات تو ابھی بھی بہہ رہا ہے اور میرا دادا بمعہ اپنے پیاروں کے پیاسا ذبح ہو گیا۔ مجھے رونامہ مشرق میں مرحوم ریاض بٹالوی کا وہ مضمون یاد آ گیا جو میں نے کالج کے زمانہ میں پڑھا تھا جس کی سرخی تھی! اور فرات بہتا رہا۔ فی الحال اتنا ہی باقی آئندہ
٭٭٭