عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کی گتھی تحریک انصاف کی پنجاب کے ضمنی الیکشن میں فتح سے سلج گئی ہے ، عمران خان کو مہنگائی کے بڑھتے طوفان اور عوامی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے وقتی طور پر عہدے سے ہٹایا گیا تھا ، پٹرول کی قیمتیں بڑھنے، مہنگائی کا مزید طوفان بپا ہونے کا سارا مدا اتحادی حکومت پر ڈال دیا گیا ہے ، جبکہ عمران خان کو بڑی مہارت کے ساتھ اس طوفان سے محفوظ بچا لیا گیا ہے ، عمران خان کی حکومت کو ہٹائے جانے پر پاکستان نیوز نے اپنی لیڈ سٹوری میں اس بات کا واضح ذکر کیا تھا کہ یہ سب کچھ عمران کان کی فیس سوینگ کے لیے کیا جا رہا ہے اور آج یہ بات سچ ثابت ہوئی ہے ، عمران خان کی عوام میں مقبولیت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے اور لوگ عمران کے دور کی مہنگائی اور اقدامات کو مکمل طور پر بھول چکے ہیںاگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اتحادی حکومت کو ماموں بنادیا ہے ۔
پاکستان میں پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات اتوار کو ہوئے جن میں اب تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف نے 15 نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) نے چار اور آزاد امیدوار نے ایک نشست حاصل کی۔انتخابات چاہے جس بھی ملک میں ہوں، کسی نہ کسی صورت میں دھاندلی کا شور اٹھتا ہی ہے اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اکثر اپنے ملک کے انتخابات کے حوالے سے یہ الزام عائد کرتے رہے۔پاکستان کا معاملہ تھوڑا زیادہ پیچیدہ ہے اور یہاں انتخابات کے نتائج ہی تسلیم نہ کرنا اور ان پر قانونی کارروائی اور سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا عام ہے مگر اتوار کے روز ہونے والے انتخابات پاکستانی انتخابی تاریخ میں اس حوالے سے منفرد رہے ہیں کہ متعدد بار قومی اور صوبائی حکومت بنانے والی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں برتری حاصل نہ کرنے کے باوجود فوری طور پر ان نتائج کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔پارٹی کی نائب صدر مریم نواز شریف نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ‘مسلم لیگ (ن) کو کھلے دل سے نتائج تسلیم کرنا چاہئیں۔ عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہئے۔ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے،دل بڑا کرنا چاہئے، جہاں جہاں کمزوریاں ہیں، ان کی نشاندہی کر کے انھیں دور کرنے کے لیے محنت کرنی چاہئے۔واضح رہے کہ پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور اتوار کی شام تک عمران خان ٹوئٹر پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کر چکے تھے۔ اْنھوں نے اس کا الزام سرکاری مشینری کو دیا اور عدالتوں سے بھی کھلنے اور کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ پارٹی کی واضح پوزیشن سامنے آنے کے بعد عمران خان سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں کے بیانات سے دھاندلی کا عنصر غائب ہوتا گیا تاہم پھر بھی وہ اپنے کارکنان کو پولنگ سٹیشنز پر موجود رہنے کا کہتے رہے تاکہ کہیں مبینہ طور پر انتخابی نتائج تبدیل نہ کر دیئے جائیں۔ معاملہ چاہے جو بھی ہو، پاکستانی تناظر میں یہ ایک منفرد بات ہے کہ کسی بھی جماعت نے اپنی حریف کی بھاری کامیابی کو سرِ شام ہی تسلیم کر لیا ہو اور پی ٹی آئی کی سب سے بڑی حریف جماعت مسلم لیگ (ن) نے اپنے گڑھ پنجاب بالخصوص لاہور میں شکست کو تسلیم کیا ہے۔ سیاست میں خوش مزاجی کے یہ رویے تو اپنی جگہ قابلِ تحسین ہیں مگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کے سامنے مرکز اور پنجاب میں اب بظاہر مشکل وقت ہے۔وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے لیے نیا انتخاب 22 جولائی کو ہونا ہے اور اب پی ٹی آئی کی بھاری مارجن سے فتح کے بعد بظاہر حمزہ شہباز شریف وزیرِ اعلیٰ پنجاب نہیں رہ سکیں گے لیکن مرکز میں اْن کے والد میاں شہباز شریف کی حکومت ہے اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سمیت کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کو اب مستعفی ہو جانا چاہیے۔ یہ انتخابات اس حوالے سے بھی منفرد رہے کہ ان میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ تقریباً 50 فیصد رہا ہے جبکہ عام طور پر ضمنی انتخابات میں اتنا ٹرن آؤٹ دیکھنے میں نہیں آتا۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں شکست کے بعد اتحادی حکومت کے ہنگامی اجلاس میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ، وزیراعظم شہباز شریف اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے شرکت کی جس کے بعد پی ٹی آئی نے شورمچانا شروع کر دیا کہ ہمارے اراکین کو بھاری رقوم کی آفرز کی جا رہی ہیں بلکہ پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ آصف زرداری نے ہمارے ایک ایم پی اے کو 40 کروڑ دے کر ترکی روانہ کر دیا ہے ، فواد چودھری کی جانب سے اس الزام کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے الیکشن کمیشن سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ، اب دیکھنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں اونٹ کس طرف بیٹھتا ہے ۔
٭٭٭