ماضی کا پتہ نہیں مگر اپنی ہوش کے بعد پاکستان میں سیاسی انارکی کا موجودہ دور بد ترین دور کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، سیاسی چالبازیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں سیاسی مخالفین کے خلاف چن چن کر مقدمات بنائے، بلکہ ایسے مقدمات بھی بنائے جو روز اول سے ہی حکومتی متعصب رویہ کی عکاسی کرتے تھے، جن میں رانا ثنااللہ کے خلاف منشیات اور احسن اقبال کے خلاف نارووال سپورٹس کمپلیکس کیس بہت بڑی مثالیں ہیں۔ خصوصا نارووال اسپورٹس کمپلیکس کیس میں جب نیب کی جانب سے جب چارج شیٹ سامنے آئی تو اس میں ایک الزام یہ بھی تھا کہ نارووال سپورٹس کمپلیکس بارڈر کے قریب تعمیر کیا گیا ہے جو کہ سکیورٹی نقطہ نظر سے انتہائی غلط ہے۔ یہ کیس دائر ہونے کے کچھ ہی دنوں کے بعد مجھے نارووال شکار کے لیے دوست کے ہمراہ جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے اسپورٹس کمپلیکس کا وزٹ بھی کیا تو بے اختیار نیب کی چارج شیٹ پر میرا قہقہ بلند ہوا۔ نارووال شہر پاکستان اور بھارت کے درمیان طے شدہ انٹرنیشنل بارڈر پر واقع ہے۔ جب ہم بارڈر کا وزٹ کرنے والا کے قریب کے تو وہاں پر موجود ایک فوجی افسر نے ہمیں بتایا کہ یہاں پر دونوں طرف سے کسی قسم کی دخل اندازی کی توقع کرنا بھی بے وقوفی ہے، یہ طے شدہ عالمی بارڈر ہے یہاں پر سکیورٹی صرف اسمگلنگ روکنے کی غرض سے کی جاتی ہے، ورنہ یہاں پر چلنے والی ایک گولی بھی اعلان جنگ کے مترادف ہو گی۔ رانا ثنااللہ کے خلاف بننے والے منشیات کے پر آج بھی سابقہ حکومتی وزرا خود بھی شرمندہ نظر آتے ہیں۔ مگر ہم نے تاریخ سے کیا سیکھا، آج پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور وزرا موجودہ حکومتی اتحاد کے نشانے پر ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے کہ سیاستدانوں کو سمجھ کیوں نہیں آرہی وہ اپنے گھر یعنی پارلیمنٹ کو بے توقیر کرتے جا رہے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ ان سیاستدانوں کی بھاگیں کہاں سے کنٹرول ہو رہی ہیں، کاش کہ موجودہ حکومت وقت اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی رد عمل سے عمران خان کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کا جواب دیتے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ہونے والی ان کارروائیوں پر پاکستان کا ایک بڑا طبقہ ماضی میں ان کی جانب سے کی جانے والی انتقامی کارروائیوں کے سبب موجودہ مقدمات پر اگر حمایت نہیں کر رہا تو اس کی مذمت بھی نہیں کر رہا۔ یہ سلسلہ اگر جاری رہا تو کل وقت پھر بدلے گا، تو موجودہ حکومتی اتحاد کو بھی اسی عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
٭٭٭