پرائمری الیکشن اور مسلم کمیونٹی!!

0
101
مجیب ایس لودھی

حال ہی میں ہونے والے ڈیموکریٹس کے پرائمری انتخابات نے مسلم کمیونٹی کی پول کھول کر رکھ دی ہے، اس وقت مسلم کمیونٹی نااتفاقی اور عدم اعتماد کا شکار دکھائی دے رہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ پرائمری الیکشن میں مسلم امیدواروں کی بجائے دیگر مذاہب اور قومیت کے امیدواروں نے فتح حاصل کی ہے ، الیکشن کے دوران مسلم امیدواروں کی کامیابی کی شرح بہت کم رہی ہے ۔ ڈیموکریٹس کے پرائمری الیکشن کے دوران لارا کیلن نے شاندار فتح حاصل کی ، کچھ مقامات پر مسلم امیدوار بھی اپنی نشستیں جیتنے میں کا میاب رہے ہیں لیکن ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔مسلم کمیونٹی نے مسلم امیدواروں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے جس کی وجہ سے صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ پرائمری الیکشن میں کامیاب ہونے والے امیدواروں میں مسلم امیدواروں کی تعداد گنی چنی ہی ہے۔ مشی گن پرائمری الیکشن کے دوران 4 لاکھ 75 ہزار ووٹوں کا کاسٹ ہونا کسی ریکارڈ سے کم نہیں ہے، ٹرمپ اور بائیڈن کے الیکشن کے دوران بھی اتنی بڑی تعداد میں ووٹ سامنے نہیں آ سکے ہیں ، پرائمری الیکشن کے نتائج سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خوش قسمتی سے، شہریوں کے نچلی سطح پر محب وطن گروپ وہ کام کر رہے ہیں جو ان کے منتخب نمائندوں اور سینیٹرز کو کرنا چاہئے اور ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ 2020 میں مشی گن میں واقعی کچھ گڑبڑ ہوئی تھی کیونکہ ٹرن آئوٹ بہت مایوس کن تھا۔مشی گن میں ووٹنگ قوانین بھی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں بہت نرم ہیں ، یہاں پر کوئی شخص بغیر کسی وجہ ووٹ ڈالنے کے لیے غیر حاضر رہ سکتا ہے جبکہ دیگر ریاستوں میں اس کی مستند اور بڑی وجہ بیان کرنا پڑتی ہے اور اس قانون میں تبدیلی سے ہی ری پبلیکن کو مستقبل میں مشی گن سے کوئی فتح مل سکتی ہے، موجودہ پرائمری الیکشن میں ری پبلیکن کی عوامی حمایت میں کمی آئی ہے ۔ انتخابات کے دوران ”کوالیفائیڈ ووٹر فائل ”بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے کیونکہ ووٹوں کی کاسٹ کے ساتھ اس پر بھی ووٹوں کے اندراج کو یقینی بنایا جا تا ہے کہ کتنے ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں ، لیکن الیکشن کی رات کو 55ہزار ووٹوں کا ریکارڈ موجود ہی نہیں تھا، ابتدائی اطلاعات کے مطابق چار ریاستو ں میں الیکشن کی رات ہزاروں ووٹوں کا ریکارڈ غائب تھا، الیکشن کے دوران مشی گن مقننہ کے تین موجودہ ممبران اور مشی گن سکریٹری آف اسٹیٹ کے لئے جی او پی کی امیدوار کرسٹینا کرامو نے سوال اٹھایا ہے کہ آخر ووٹ کدھر گئے ، ان کو فہرست میں درج کیوں نہیں کیا گیا یہ بھی اپنی جگہ پر ایک مسئلہ ہے جس کو آئندہ الیکشن کے لیے حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ الیکشن دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوں ، ووٹنگ نظام میں خامیاں اور چھوٹے مسائل منظر عامر پر آتے رہتے ہیں ، لیکن ان کو بروقت حل کر کے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے ، سیکرٹری آف اسٹیٹ کی جانب سے بھی ایسے ووٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے جوکہ جنوری 1900میں سامنے آئے اور اس کے بعد ان کو اچانک سے موجودہ پرائمری الیکشن کے دوران دیکھا گیا، خیر ووٹنگ نظام کی خامیاں تو اپنی جگہ درست ہوتی رہیں گی لیکن مسلم کمیونٹی اگر مستقبل میں واقعی اپنے مسائل کو ترجیحی بنیادوںپر حل کرانا چاہتی ہے تو مسلم نمائندوں کو ہی آگے لانا پڑے گا،اس کے بغیر مسلم کمیونٹی کی مستقبل میں کامیابیوں کے امکانات بہت کم ہیں ۔ اگر ہم نیویارک کی بات کریں تو مسلم کمیونٹی کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ، گزشتہ دس سالوں کے دوران مسلم کمیونٹی کو تیزی سے بڑھنے والی واحد کمیونٹی کا اعزاز حاصل ہے ،اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باجود پرائمری الیکشن میں مسلم امیدواروں کا کامیابی حاصل نہ کرنا آپس کے اختلافات کا شاخسانہ ہے، مسلم کمیونٹی کی جانب سے مسلم امیدواروں کو نظر انداز کرنا دوسری بڑی وجہ ہے کہ مسلم امیدوار پرائمری الیکشن میں فتح حاصل نہیں کر پائے ہیں ، اب اگر مسلم کمیونٹی میدان سیاست میں خود کو منوانا چاہتی ہے تو کالے، گوروںکی بجائے مسلم امیدواروں کی فتح میں کلیدی کردار اداکرنا ہوگا، کیونکہ کمیونٹی سے مسائل حل کرنے کا وعدہ کر کے الیکشن میں کامیاب ہونے والا مسلم امیدوار کبھی بھی کمیونٹی کے ساتھ دھوکہ دہی نہیں کر سکتا ہے کیونکہ ایک مرتبہ ایسا کرنے پر دوسری مرتبہ کمیونٹی ایسے رکن کو کبھی موقع فراہم نہیں کرتے ، اس لیے مسلم امیدوار ہی مسلم کمیونٹی کو مشکلات کے گرداب سے نکال سکتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here