محترم قارئین! غوث اعظم بمن بے سرو سامان مدد دے۔ قبلہ دیں! مددے ،کعبہ ایماں مددے ،اولیاء کرام تو بہت ہوئے اور قیامت تک ہوتے رہیں گے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کشط وکرامات اور مجاہدات وتصرفات کی بعض خصوصیات کے لحاظ سے حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کو اولیا علیھم الرضوان کی جماعت میں ایک خصوصی امتیاز حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء مقتدمین میں سے بہت سے باکمال اور صاحبان کشف وصال بزرگوں نے آپ کے ظہور کی بشارتیں دی ہیں۔ اور اولیاء متاخرین میں سے ہر ایک آپ کی مقدس دعوت کا نقیب اور آپ کی مدح وثنا کا خطیب رہا اور علماء سلف وخلف نے آپ کے بلند درجات اور تصرفات وکرامات کے بارے میں اس قدر کتابیں تحریر فرمائیں کہ شاید ہی کسی ولی کے بارے میں مستفید تحریروں کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہو۔ آپ کی بزرگی و ولایت اس قدر مشہور اور مسلم الثبوت ہے کہ آپ کے ”غوث اعظم” ہونے پر تمام امت کا اتفاق ہے چنانچہ حضرت علامہ عزیز الدین بن سلام فرماتے ہیں کہ کسی ولی کی کرامتیں اس قدر تواتر کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچی ہیں جس قدر تواتر کے ساتھ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی کرامتیں منقول ہیں۔ اور پھر تقات راویوں سے منقول ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے بڑے بڑے علماء دہر اور اولیاء عصر نے آپ کے تبحر علمی اور درجہ ولایت کی عظمت کا اعتراف کیا اور آپ کی شان میں ایسے ایسے کلمات لکھے جوآپ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ نسی شرافت اور خاندانی وجاہت کے علاوہ علمی جلالت، علمی عظمت، کمال ولایت اور کثرت کرامات کی جامعیت آپ کی یہ دو خاص الخاص خصوصیات ہیں جو بہت کم اولیاء رضی اللہ عنھم کو حاصل ہوئیں۔ اسی لئے بہت سے اولیاء اللہ اپنے اپنے دور میں چاند کی طرح چمکے اور چند دنوں ان کی شہرت کا ڈنکا بجتا رہا مگر رفتہ رفتہ چودھویں کے چاند کی طرح ان کے ذکر و شہرت کی روشنی گھٹتی اور کم ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ دنیا ان کے ناموں کو فراموش کر گئی مگر حضرت محبوب سبحانی، غوث اعظم، شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو تقریباً نو سو سال ہونے کو ہیں مگر آپ کی شہرت کے آفتاب کو کبھی گہن نہیں لگا مگر ہمیشہ آپ کی ولایت وکرامت کا ڈنکا چاردانگ عالم میں بجتا ہی رہا اور آج بھی آپ کی عظمتوں اور کرامتوں کا آفتاب اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا ہے اور انشاء اللہ وتعالیٰ قیامت تک چمکتا رہے گا کیا خوب فرمایا حضور اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے:
سورج اگلوں کے چمکے چمک کر ڈوبے
اُفق نور پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ یکم رمضان المبارک470ھ کو ایران میں پیدا ہوئے۔ اور شہر کا نام گیلان تھا۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی سید ابوصالح موسیٰ جنگی دوست ہے۔ اور والدہ کا نام ام الخیرامتہ الجبار فاطمہ ہے۔ رضی اللہ عنھا والد صاحب کی طرف سے آپ کا شجرہ نسب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ اور والدہ ماجدہ کی طرف سے آپ کا سلسلہ خاندان حضرات امام حسین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔اس لئے آپ خاندانی شرافت اور نسبی وجاہت کے اعتبار سے حسنی حُسینی رضی اللہ عنہ سید ہیں۔ اس مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے اور کیا خوب فرمایا ہے آپ نے:
تو حسینی حسن کیوں نہ محی الدین ہو۔اے خضر مجمع بحرین ہے دریا تیرا
آپ کی خاندانی وجاہت کا کیا کہنا؟ آپ کا خاندان گویا گوہر ولایت کی کان ہے چنانچہ نسلاً بعد نسل ہمیشہ اس خاندان کے افق سے ولایت کے آفتاب طلوع ہوتے رہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والدین، نانا جان، پھوپھی جان اور آپ کے فرزند رضی اللہ عنھم سب کے سب ولایت کے آسمان پر ستاروں کی طرح چمکتے نظر آتے ہیں۔ آپ کے والد ماجد حضرت ابوصالح رضی اللہ عنہ اپنے دور کے صالحین میں تقویٰ شعاری اور پرہیز گاری کے اعتبار سے نہایت پرہیز گار اور انتہائی عبادت گزار تھے۔ اسی طرح آپ کی والدہ ماجد رضی اللہ عنھا بھی تقویٰ وپرہیز گاری میں فریدہ دہرو وحیدہ عصر تھیں۔ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت کے وقت آپ کی والدہ ماجدہ کی عمر مبارکہ تقریباً ساٹھ سال تھی۔ تجربات شاہد ہیں اور اطباء کا یہ فیصلہ ہے کہ اس عمر میں اولاد پیدا ہونا کسی عورت کے لئے بھی محال عادی ہے۔ مگر یہ بھی آپ کی قابل ذکر کرامت ہے کہ اس عمر میں آپ کے نورانی پیٹ سے ولایت کا ایسا آفتاب طلوع ہوا کہ جس کی ہدایت کی روشنی سے پورے عالم کو منور کر دیا۔ آپ کے نانا جان حضرت عبداللہ صومعی رضی اللہ عنہ تو اتنے بڑے جلیل القدر زاہد وعابد تھے۔ کہ آپ کی دعائیں قبول ہوئیں اور آپ صاحب کرامت ولی تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے