قارئین وطن! سردار عبدل رب نشتر جو حضرت قائید اعظم کے دستِ راست تھے اور پاکستان بنانے میں قائید کے قدم سے قدم ملا کر چلتے تھے اور ان کی کابینہ کے انفارمیشن منسٹر تھے پھر گورنر کہ عہدہ پر بھی فرائض انجام دیتے رہے ہیں جب شہید ملت لیاقت علی کی شہادت کے بعد وطن کی سیاست میں ریشہ دوانیاں عروج پر پہنچیں اور اندرونی اور بیرونی سازشوں نے دم بھرنا شروع کیا تو انہوں نے نیچے درج شعر پڑھا!
نیرنگئیے سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
آج بھی یہ شعر زندہ ہے اور اقتدار کی ہر کرسی پر اس شخص کو براجمان دیکھا جس کی پاکستان کی جدوجہد آزادی سے لے کر آج کے پولیٹیکل سیٹ آپ میں رتی بھر کنٹری بیوشنن نہیں ہے ،سال پہلے جب نواز شریف کو ضیاالحق نے چیف منسٹر بنوایا تو اہلِ شعور اوپر درج شعر پڑھتے اور ضیاالحق کو مغلظات بکتے اس دور میں پھر ہر کتا ،بلا اقتدار کے ایوان میں پہنچایا گیا جو جمہوریت کی الف ب ،سے واقف بھی نہیں تھا، خیر اس ہجوم میں سیاسی یتیموں کی مجلسِ شوریٰ بنائی گئی جس کاچیئر مین خواجہ صفدر کو بنایا گیا ایوبی آمریت سے لڑتے لڑتے جرنل ضیاالحق کی گود میں جا گرا اور آج اس کا بیٹا جرنل کرامت اور جرنل باجوہ کا جوتا چاٹتے چاٹتے امپورٹڈ حکومت کا چاند تارا بنا ہوا ہے اور یہی حال ہمارے انکل خواجہ رفیق کے صاحبزادگان کا ہے اور یہاں ہمارے دوست یہی شعر پڑھتے رہے منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے ۔
قارئین وطن! ہماری سیاسی غیرت کا حال یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے جب امریکی صدر جونئیر بش کے حکم پر آصف زرداری پر دس پرسنٹ کو مملکت کے سب سے بڑے عہدہ صدارت پر جب براجمان کیا تو آسمان بھی رویا اور زمین بھی روئی اور پھر موصوف نے ایوان صدارت کو نہ صرف گھوڑوں کا اسطبل بنایا بلکہ لوٹ کا ایک ایسا بازار سجایا کہ قوم کی حس مر گئی اس کے بعد چل سو چل ،ہر اس شخص کے لئے پھر کچھ کئے بغیر منزلوں کے دروازے کھلتے گئے، شرط صرف یہ تھی کہ فور سٹار بوٹوں کے مندر میں چڑھاوے چڑھانے کا فن آنا چاہئے۔ اب پنجاب کے کئیر ٹیکر چیف منسٹر محسن نقوی اور اس کی کابینہ کی طرف نظر دوڑائیں قسم خدا کی لنڈے کی جیکٹ میں جڑے ٹیچ بٹن لگتے ہیں، خاص طور پر کوئی ڈاکٹر اکرم سے پوچھے کہ اس کو کسی وزارت یا شہرت کی ضرورت ہے کون ہے جو نہیں جانتا کہ یہ بدنامِ زمانہ جسٹس ملک قیوم کا چھوٹا بھائی ہے، ان سب سے تو بہتر ہمارے نواب زادہ میاں ذاکر نسیم دیبالپوری نکلے کہ انہوں نے وزارت یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ میں کسی امپورٹڈ حکومت کا نمائندہ بننے کو تیار نہیں ،کوئی تو ہے جو ایسی منزل کا مسافر بننے سے انکاری ہے کہ جس کا وہ ہمسفر نہیں۔
قارئین وطن! اس ہفتہ مجھ کو میرے بڑے ہی پیارے دوست چھوٹے بھائیوں سے بڑھ کر ملک احتشام رفیق صاحب نے مربعہ میل پر محیط امپورٹڈ حکومت کا جائزہ لینے کی دعوت دی، میرے اس چھوٹے سے قافلہ کے ہمسفر اشفاق چوہان ایڈووکیٹ صاحب، جونیجو مسلم لیگ کے صدر اقبال ڈار صاحب اور اکرام قریشی صاحب تھے ،ملکی حالات پر گفتگو کرتے سفر کاپتا نہیں چلا ،سوائے میرے تین دریاں راوی، چناب اور جہلم جن کی آنکھ کا پانی مر چکا تھا عوام کی غربت و افلاس کا کہیں پتا نہیں چلتا تھا ،راستے کے جتنے بھی ریسٹ ایریاز تھے ،مریم نواز کے شو میں آنے والے سینکڑوں کا ہجوم لگتا تھا ،میں نے کچھ لوگوں سے حالات کے حوالے سے گفتگو کرنی چاہی، سب نے مہنگائی کا شور مچایا ،اس کے باوجود ان کے ہاتھوں میں تکہ کباب کی گرم گرم پلیٹ سامنے پڑی تھی جس کو وہ انجوائے کر رہے تھے یہ تو تھا موٹر وے کا حال کہ غریبی مزاج میں تھی سفر کے کسی حصے میں نظر نہیں آئیو۔
قارئین وطن! اسلام آباد میں ملک احتشام کی مہمان نوازی کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں کم ہے انہوں نے ہمارے طعام و قیام کا سارا بندوبست کیا ہوا تھا کہ ایک انچ ادھر سے ادھر نہیں ہونے دیا، میں اپنے ہمسفر اشفاق چوہان صاحب کا بے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے وکلا برادری کی اتنی زبردست اور پروقار شخصیت میاں ماجد بشیر بیرسٹر صاحب سے ملاقات کروائی۔ میاں ماجد صاحب احمر بلال صوفی کی لا فرم کے سینئر ایسوسی ایٹ ہیں آپ عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں رہے ہیں آپ ہیومن رائٹ کے علمبرداروں میں ہیں اور امریکہ اور یونائیٹڈ نیشن کو خوب سمجھتے ہیں ان کی سحر انگیز گفتگو اور محمد بخش کے کلام نے مجھ جیسے پولیٹیکل ورکر کہ سوچنے کے لئے کئی باب کھول دئیے ،ایسے لوگ جو کسی نمود و نمائش کے بغیر پیچھے بیٹھ کر قوم و ملک کی خدمت کر رہے ہیں خال خال ملتے ہیں آخر میں ،میں نے ان سے ایک گزارش کی اجازت چاہی تو انہوں نے کہا کھل کر کریں، میں نے ان سے اسلم زار صاحب اور راشد لودھی کے لئے ووٹ کی درخواست کی تو انہوں نے بڑے دھڑلے سے کہا ووٹ آپکا چوہان صاحب اور میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اگلی منزل کی جانب چلے ۔
قارئین وطن! اسلام آباد میں میرا سب سے پسندیدہ اسپاٹ کوہسار مارکیٹ ہے جہان پیپلز پارٹی کا مشہور زمانہ گورنر سلیمان تاثیر قتل ہوا تھا، مذہبی منافرت کے نام پر وہی حربہ دوبارہ استعمال ہونے کی کوشش عمران خان پر کی لیکن اللہ نے زندگی اور قبر کے راستے کو کافی طویل رکھا ہوا ہے خیر بات ہو رہی تھی کوہسار مارکیٹ کی جہاں میرے بڑے بھائی اور بہت ہی پیارے دوست اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر عارف چوہدری ایڈووکیٹ صاحب نے مشہور ریسٹورنٹ ٹاک آف دی ٹائون میں میرے اور میرے رفقا کے لئے زبردست محفل سجائی ہوئی تھی، کون ہے جو عارف چوہدری صاحب کے بے لاگ ٹی وی پر تبصروں سے واقف نہیں ہے اس بار سیاسی گپ شپ کی وجہ سے اپنے بھتیجے سقراط چوہدری اور بھابھی صاحبہ سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہو سکا چوہدری صاحب دوستی اور دشمنی میں برابر وزن رکھتے ہیں جب میرے دوست اسلم زار صاحب سیکٹری سپریم کورٹ بار کے لئے کھڑے تھے تو میں نے ان سے کیانی حال میں کھڑے ہو کر ووٹ مانگا تھا انہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی انکار کر دیا کہ زار صاحب نے مجھ سے رابطہ ہی نہیں کیا مجھ کو عارف صاحب کی صاف گوئی پر برا بھی لگا اور اچھا بھی برُا اس لئے کہ چلو میرا دل ہی رکھ لیتے اچھا اس لئے کہ میرا یار بے باک آدمی ہے آج میں نے پھر درخواست کی تو انہوں نے پچیس دوستوں کی طرف انگلی گما کر بڑے تمتراک سے کہا کہ یہ ووٹ اسلم زار اور راشد لودھی کے ہیں۔ میرے اور میرے ہمسفر ساتھیوں کے پاس ان کی پرتکلف دعوت پر شکریہ کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ نہیں تھا ،عارف چوہدری سے دوستی کا سارا کریڈٹ ہمارے مشترکہ دوست اور بھائی شاہد نواز چغتائی (آقا جی)کو جاتا ہے آقا جی تھینکس فار دی ونڈرفل گفٹ و عزیزانِ سیاست! جتنی دیر کوہسار مارکیٹ میں چوہدری صاحب کی محفل اور ڈیلکیسیز انجوائے کر رہتے تھے میں مربعہ میل کی امپورٹڈ حکومت کے بارے سوچ رہا تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ امپورٹڈ وزیر اعظم ، آصف زرداری اور تمام کرپٹ ٹولہ سب سے غریب نظر آیا اور کوہسار مارکیٹ میں بیٹھا ہر شخص ارب پتی ہے ایسا لگتا ہے کہ قوم بے حس ہو چکی ہے آخر میں چوہان صاحب نے ملک کی سلامتی کے لئے دعائے خیر مانگی اور خوبصورت محفل کا اختتام ہوا اور گھر کے بد ھو گھر کو لوٹے اور میں سردار عبدل نشتر کے اس شعر کو اپنے ذہن میں گنگنا تا رہا!
نیرنگئے سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
٭٭٭