جیل بھرو تحریک…اور عمران خان!!!

0
81

تحریک انصاف کی جانب سے جیل بھرو تحریک ملک میں موجود نظام انصاف اور جمہوری اداروں پر عوام کا اعتماد مجروح کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ بظاہر جیل بھرو تحریک کا اعلان تحریک انصاف کے رہنمائوں کی مسلسل گرفتاریوں اور ان پر مقدمات کے اندراج کا ردعمل ہے۔تحریک انساف کو شکایت ہے کہ متعلقہ ادارے اور نظام انصاف حکومت کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ تحریک انصاف ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔اپریل 2022 کو جب تحریک انصاف کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کی گئی تو یہ پاکستان میں پہلی حکومت تھی جس کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔انہوں نے گرفتاریاں پیش کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ ڈرنے والے نہیں۔حکمران گرفتاریوں کا شوق پورا کر لیں۔سربراہ تحریک انصاف نے پی ٹی آئی رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کو میاں نواز شریف کو وطن واپس لانے کی حکومتی کوششوں کا حصہ قرار دیا اور کہا کہ پی ٹی آئی جیلیں بھر دے گی۔جیل بھرو تحریک کا اعلان ملک میں سیاسی قوتوں کے مابین لڑائی کو شدید کر سکتا ہے ،خدشہ ہے کہ یہ لڑائی پھیل کر ریاست کے دیگر شراکت داروں کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ عمران خان غیر مقبول ہو گئے تھے یہ بھی بتایا گیا کہ عمران خان کے ساتھی ان کاساتھ چھوڑ رہے تھے۔دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے پاس قومی اسمبلی میں اتنی اکثریت نہیں تھی کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت ختم کر کے اپنا وزیر اعظم لا سکتیں۔بہتر یہی ہوتا کہ حکومت ختم کرنے کے بعد نئے انتخابات کی طرف بڑھا جاتا۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ حکومت میں تھے وہ سابق بری روایات کو دہراتے اور وفاداریاں تبدیل کرنے والے ارکان کو سرکاری خزانے سے مراعات دے کر روک سکتے تھے لیکن انہوں نے غیر جمہوری روایت کی حوصلہ افزائی مناسب خیال نہ کی۔پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے درمیان کشمکش میں کئی موڑ ایسے آئے کہ یوں محسوس ہونے لگا گویا کوئی نئی بساط بچھ گئی ہے جس میں عمران خان کو ہرانے کا خیال آگے بڑھایا جا رہا ہے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں استعفوں کا معاملہ جس طرح متنازع ہوا سپیکر ڈپٹی سپیکر اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف جس طرح فریقین نے عدالتوں سے رجوع کیا اور جس طرح حکومتی اتحاد توڑ کر تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی یہ صرف سیاست نہیں بلکہ ایسے حربے سمجھے گئے جو سیاستدان مدتوں تک ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں۔ عمران خان کو اقتدار سے باہر نکال کر پی ڈی ایم کی توقعات پوری نہیں ہو سکیں۔ پی ڈی ایم نے مہنگائی کم کرنے معیشت بحال کرنے استحکام لانے اور عام آدمی کے مسائل کم کرنے کے وعدے کر رکھے ہیں۔یہ وعدے کس حد تک پورے ہوئے اس کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر 17ارب ڈالر سے کم ہو کر 3ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔مہنگائی کی شرح عمران خان کے دور میں 9فیصد تھی جو نو مہینوں میں 45فیصد ہو چکی ہے۔ایک کروڑ سے زیادہ لوگ ان چند ماہ میں بے روزگار ہوئے ہیں۔آئی ایم ایف کی شرائط کی آڑ میں حکومت نے پٹرول بجلی گیس پانی مہنگے کر دیے لیکن وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد 78ہو چکی ہے۔جن میں سے 30سے زاید کسی محکمہ کے نگران نہیں فارغ بیٹھ کر مراعات ہضم کر رہے ہیں۔وزیر اعظم ملکوں ملکوں قرض اور امداد کی اپیل کرتے پھر رہے ہیں لیکن کوئی ملک اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔سیاسی بے چینی کے ماحول میں معاشی تباہی نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں تشکیل پانے والی حکومت کی ساکھ بری طرح متاثر کی ہے۔اس صورت حال کا فائدہ عمران خان کو ملا ہے۔ وہ پی ڈی ایم حکومت کی استعداد کے متعلق عوام کو اپنا حامی بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔تحریک انصاف ضمنی انتخابات میں بھر پور کامیابی سمیٹ چکی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ نہ دینا اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے اور کبھی حصہ نہ لینے کا فیصلہ پی ڈی ایم کی ساکھ مزید خراب کر رہا ہے ساتھ میں تحریک انصاف کی حمایت بڑھانے کا موجب بن رہا ہے۔ ملک پہلے ہی مشکل حالات کا شکار ہے۔تحریک انصاف کی جانب سے جیل بھرو تحریک کا آغاز ہوتا ہے تو نئے مسائل سامنے آ سکتے ہیں۔بہتر ہو گا کہ حکومت انتشار اور اشتعال کو مزید پھیلنے سے روکے اور بحران سے نکلنے کے لئے آئین سے رجوع کرے۔جمہوری قوتوں کی شناخت آئین پر کاربند رہنے سے مثبت رہتی ہے آئین کو پس پشت ڈال دیا جائے تو بحرانوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کوئی نظام اس وقت تک نشوو نما نہیں پا سکتا جب تک وہ جھگڑوں اور تنازعات کو پرامن طریقے سے طے کرنے کا طریقہ کار وضع نہیں کرتا۔سیاسی جھگڑے آئین پر پابندی سے طے ہو سکتے ہیں جبکہ قومی مکالمے کا سب سے اعلی ادارہ پارلیمنٹ ہوتا ہے۔پاکستان میں سیاسی نظام اور جمہوریت اس وجہ سے کمزور ہیں کہ سیاسی جماعتیں مخالفین کو دبانے کے لئے عوام کی بجائے غیر جمہوری ہتھکنڈوں پر بھروسہ کرتی ہیں۔ الیکشن کمیشن گورنروں کی جانب سے تاریخ کا منتظر ہے لیکن گورنر اپنی آئینی ذمہ داریوں کی بجائے جماعتی پالیسی کو اولیت دے رہے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here