عوام اور پاک فوج کا باہمی رشتہ!!!

0
88

ریاست کا محور پاکستان کے عوام ہیں۔ فوج کی پہلی اور سب سے اہم ذمہ داری ریاست پاکستان کے ساتھ وفاداری اور مسلح افواج کو تفویض آئینی کردار سے وابستگی ہے۔ہمارے لئے عوام کی حفاظت اور سلامتی سے زیادہ مقدس کچھ نہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں ظاہری اور چھپے دشمن کو پہچاننا حقیقت اور ابہام میں واضح فرق روا رکھنا ہو گا۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے عوام اور پاک فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے والے دشمنوں کے سرگرم ہونے سے خبردار کیا ہے۔ پی ایم اے کاکول کی پاسنگ آئوٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ عوام اور پاک فوج کے باہمی رشتے کو برقرار رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جس وقت پاک فوج کی کمان سنبھالی ملک میں سیاسی انتشار کی حالت تھی ان کی جانب سے فوج کا آئینی کردار تک محدود رہنے اور سیاست سے لاتعلقی کے اعلانات کئے جا چکے ہیں۔چند روز قبل آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف کی پریس بریفنگ کے دوران بھی فوج کے سیاسی معاملات سے الگ رہنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی اس حکمت عملی کو سراہا جانا چاہیے۔پاکستان کی تاریخ میں ایسے چند مواقع ہی ملتے ہیں جب سیاسی قوتوں کو آزادانہ طور پر اپنا کردار ادا کرنے کا ماحول میسر آیا ۔اب یہ سیاست دانوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس وقفے کو جمہوری استحکام پارلیمنٹ کی بالادستی اور باہمی کشیدگی میں کمی کے لئے استعمال کر لیں یا پھر ایک دوسرے سے ماضی کے سلوک کا بدلہ لیتے رہیں۔بلا شبہ پاکستان کے عوام پاک فوج کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔گزشتہ بائیس برسں کے دوران عام آدمی بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کا نشانہ بنے ہیں۔تعلیمی اداروں شاپنگ مال ٹرین بس اڈوں شاہرائوں اور دفاتر میں کام کرتے لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے ۔پاک فوج کی ذمہ داری اس صورت حال میں دو چند ہو گئی۔ایک طرف اسے سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتی ہے جہاں دشمن ہمیشہ وار کرنے کو تیار نظر آتا ہے دوسری طرف داخلی سلامتی کے مسائل ہیں جو دہشت گرد عناصر ہی نہیں بلکہ قوم کو فکری الجھائو کا شکار کرنے والوں کی وجہ سے سنگین ہوئے جا رہے ہیں۔ اس فکری جنگ میں پاک فوج کے سپاہی سیاستدان ، اہل علم محققین اور ابلاغیاتی ماہرین ہیں۔یہ عوام سے جڑے طبقات ایسی ہر کوشش کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو دشمن قوتیں عوام اور پاک فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے لئے آزما سکتی ہیں۔عام پاکستانی سمجھتا ہے کہ زلزلہ اور سیلاب میں اس کی مدد کا کام فوجی جوان انجام دیتے ہیں۔ دشمن سرحدوں پر آ کر للکارے تو فوج ہی اس کو جواب دیتی ہے۔ پاکستان میں فوج کا ایک کردار ملکی انتظام میں رہا ہے۔اس کی بڑی وجہ انتظامی حوالے سے سیاسی رہنمائوں کی تربیت اور اہلیت میں کمی ہے۔ریاست کو چلانے کے لئے اگر ایک ستون کام نہیں کرتا تو معاملات کو جوں کا توں نہیں رکھا جا سکتا۔اس کی وجہ سے بسا اوقات عسکری قیادت پر تنقید ہوتی رہی ہے لیکن اس تنقید کی وجوہات ختم کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا عوام اور پاک فوج کے درمیان دراڑ سے متعلق جائزہ بادی النظر میں موجودہ حالات میں فوج کے خلاف سرگرم کچھ قوتوں کی سرگرمیوں کی طرف اشارہ ہے۔وطن عزیز کی تمام سیاسی قوتیں محب وطن ہیں۔ان کی ملک سے محبت پر کسی کو شک نہیں لیکن معاملات کو ہر گوشے سے نہ دیکھ پانے کی وجہ سے یہ نادانستہ طور پر ایسی سرگرمیوں سے منسلک ہو جاتے ہیں جو دشمن کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔دشمن کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کے عوام کو تقسیم کیا جائے۔عوام کو تقسیم کرنے کے لئے ایک عرصہ تک مسلکی اختلافات کو ہوا دی جاتی رہی۔اب سیاست کو تقسیم کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے۔ایسا وقت بھی آیا جب جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دی گئی۔ اس دوران جمہوریت بحالی کی تحریک میں ایک عنصر فوج کی مخالفت شامل کر دیا جاتا بظاہر آمر کے اقتدار کے خلاف جدوجہد کی جاتی لیکن بیانات سے پاک فوج کو بطور ادارہ بدنام کیا جاتا۔ قیادت اگر ہوش مندی کا مظاہرہ کرتی تو یہ سلسلہ روکا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہ ہونا خرابی کو سنگین کرنے کا سبب بنتا گیا۔ زیادہ پرانی بات نہیں۔ پاکستان مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ اداروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت معاشی بحالی جمہوری تسلسل اور احتساب کے نکات پر مشاورت کے بعد ایک قومی ایجنڈہ ترتیب دیا جانا ضروری ہو چکا ہے۔آرمی چیف نے فوج کی آئینی ذمہ داریوں کی بات کی ہے، سیاسی جماعتوں کو بھی ہر حال میں آئین کے احترام کو مقدم رکھنا ہو گا کہ سیاسی بحران سے نکلنے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کا راستہ آئین ہی عطا کر سکتا ہے۔ 2017 میں جب ایک عدالتی فیصلے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کو اقتدار چھوڑنا پڑا تو انہوں نے پاک فوج کے اعلی افسروں کے متعلق انتہائی قابل اعتراض اور اشتعال انگیز لہجہ اختیار کیا۔ مسلم لیگ ن اب حکومت میں ہے لیکن اس کے رہنما اسمبلی کے اندر اور باہر اب بھی حال ہی میں سبکدوش ہونے والے اعلی فوجی افسران پر سنگین الزامات عائد کرتے ہیں۔دوسری طرف تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام ہیں۔مسلم لیگ ن کے دیکھا دیکھی ان جماعتوں کی طرف سے بھی اعلی افسران کے خلاف چبھتے بیانات جاری ہوتے ہیں۔سیاسی جماعتوں کا چونکہ عوام سے رابطہ ہوتا ہے عوام کی بڑی تعداد ان کی حمایت کرتی ہے انہیں ووٹ دے کر اقتدار سونپتی ہے۔یوں سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کا پاک فوج یا اس کے افسران سے متعلق اظہار رائے عوامی سوچ پر اثر انداز ہوتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here