فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
71

محترم قارئین! شیخ ابوالبرکات اپنی سند کے ساتھ حضرت عطما بن رباح سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ام المئومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کو میں نے فرماتے ہوئے سنا کہ آپۖ نے فرمایا حضور اکرمۖ کے زمانہ اقدس ظاہری میں ایک شخص گانے سننے کا شوقین تھا مگر جب ذوالحجہ کا چاند طلوع ہوتا تو وہ روزہ رکھ لیتا۔ حضورۖ تک یہ بات پہنچی تو آپ نے اسے بلوایا اور فرمایا کہ ان ایام کے روزے کیوں رکھتے ہو تو اس نے عرض کی یارسول اللہ! یہ عبادت اور حج کے دن ہیں میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان کی دعا اور عبادات میں شریک فرمائے۔ حضورۖ نے فرمایا کہ تجھے اللہ تعالیٰ اس روزے کے بدلے ایک سو غلام آزاد کرنے، سو اونٹ قربان کرنے جہاد کرنے اور سو گھوڑے دینے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب ترویہ کا دن ہوگا تو تجھے ایک ہزار غلام آزاد کرنے، ایک ہزار اونٹ کی قربانی کرنے اور جہاد کے واسطے ایک ہزار گھوڑے دینے کا ثواب عطا فرمائے گا اور عرفہ کے دن روزہ رکھنے کے بدلے دو ہزار غلام آزاد کرنے، دو ہزار اونٹ قربان کرنے اور جہاد کے واسطے دو ہزار گھوڑے دینے کا اجر ملے گا۔ اور ایک سال بعد میں اور ایک سال پہلے روزوں کا ثواب ملے گا۔ حضرت شیخ ابوالبرکات رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت حفصہ رضی اللہ وتعالیٰ عنھا سے نقل کیا ہے کہ آپ فرماتی ہیں حضور اکرمۖ چار چیزوں کو ترک نہیں فرماتے تھے ذوالحجہ کے پہلے عشرے کے روزے، عاشورہ کا روزہ، ہر ماہ کے تین روزے اور فجر سے پہلے دو رکعتیں یعنی فجر کی سنتیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرمۖ نے ارشاد فرمایا جن دنوں میں اللہ تعالیٰ کی خاص عبادت کی جاتی ہے ان دنوں میں سے کسی بھی دن کی عبادت اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند نہیں جتنی ذی الحجہ کی عبادت پسند ہے اس کا ایک روزہ سا بھر کے روزوں کے برابر ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ۖ نے فرمایا جو بندہ ذوالحجہ کے پہلے عشرے کے روزے رکھتا ہے اس کے لئے ایک سال کے روزوں کے برابر ثواب لکھا جائے گا۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ذوالحجہ کی دس راتوں میں چراغ نہ بجھائو اور آپ ان راتوں میں خادموں کو بیدار رہنے کا حکم فرماتے اور عبادت کو پسند کرتے تھے شیخ ابوالبرکات رحمتہ اللہ علیہ نے شریف ابوعبداللہ محمد بن علی بن محمد یحیٰی مہدی سے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضور اکرمۖ نے ارشاد فرمایا جس نے ذوالحجہ کی دس راتوں میں سے کسی ایک رات کو عبادت کے ساتھ زندہ تھا گویا اس نے سال بھر حج اور عمرہ کرنے والے کی طرح عبادت کی اور جس نے ان میں سے ایک دن کا روزہ رکھا تو اس نے سارا سال اللہ کی عبادت میں گزارا۔ حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام زمین کی طرف اتارے گئے تو آپ اپنی خطا پر چھ دن تک روتے رہے۔ ساتویں دن اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی بھیجی۔ اس وقت آپ نہایت غمگین تھے اور سر جھکائے بیٹھے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! آپ نے یہ کیا مشقت اختیار کر رکھی ہے آپ نے عرض کیا ! یا اللہ! میں بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہوں خطائوں نے مجھے گھیر لیا ہے میں عزت کے گھر سے ذلت کے گھر میں نیک بختی کے مقام پر بدبختی کے گھر میں اور دائمی گھر سے موت دفنا کے گھر میں آچکا ہوں تو میں اپنی خطا پر کس طرح نہ روئوں اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی نازل فرمائی اسے آدم کیا میں نے تمہیں اپنے لئے خاص نہیں کیا اور پھر تجھے مخلوق پر فضلیت عطا فرمائی کیا میں نے تجھے عزت وکرامت سے نہیں نوازا اور تجھے اپنی محبت عطا نہیں کی کیا میں نے تجھے اپنے دست قدرت سے پیدا نہیں کیا۔ تجھے فرشتوں سجدہ نہیں کروایا کیا تم میری طرف سے عزت وکرامت کے انتہائی مقام پر فائز نہیں رہے۔ سو تم نے میری رحمت ونعمت کو کیسے بھلا دیا مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم اگر تمام زمین ایسے لوگوں سے بھر جائے جو آپ کی طرح ہیں وہ میری عبادت کریں اور رات دن میری تسبیح بیان کریں۔ لمحہ پھر بھی میری عبادت میں سستی نہ کریں پھر بھی میری نافرمانی کریں تو میں ان کو گنہگاروں کے مقام پر اتار دوں گا یہ سن کر حضرت آدم علیہ السلام تین سال تک ہندوستان کے پہاڑوں میں روتے رہے۔ آپ کے آنسو و پہاڑوں کی ندیوں میں بہتے رہے۔ان آنسوئوں سے پاکیزہ درخت پیدا ہوئے حضرت جبریل علیہ السلام نے عرض کیا اے آدم آپ بیت اللہ شریف جائیں اور ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کا انتظار فرمائیں پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توجہ کریں تو وہ آپ پر نظر رحمت فرمائے گا قربت کے مقامات بحال ہوجائیں گے چنانچہ آپ کعبتہ اللہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جہاں آپ کا قدم مبارک پڑتا وہاں بستی بن جاتی اور قدموں کے درمیان کی جگہ جنگل بن جاتی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کے دو قدموں کے درمیان تین فرسنگ کا فاصلہ تھا آپ نے کعبہ شریف کے پاس پہنچ کر ایک ہفتہ طواف کیا اور روتے رہے یہاں تک کہ گھٹنوں تک پانی چڑھ گیا عرض کیا یا اللہ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے۔ میں تیری حمد بیان کتا ہوں مجھ سے خطا ہوئی اور میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا پس تو مجھے بخش دے اور تو بہترین بخشنے والا ہے مجھ پر رحم فرما اور تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے اور ساتھ نبی پاکۖ کے نام نامی اسم گرامی کا وسیلہ بھی عطا فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے حضرات آدم علیہ السلام کی توبہ کو قبولیت کا شرف عطا فرما دیا۔ اسی طرح ایمان والے بھی ان دس دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوبۖ کا وسیلہ دیکر جب مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا رزق مانگیں تو رزق معافی مانگیں گے تو معافی جو بھی مانگیں وہ مانگنے سے زیادہ عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ عشرہ ذوالحجہ، آدم علیہ السلام اور رسول اللہۖ کی برکت سے ہمارا توبہ قبول فرمائے(آمین) ۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here