قرض تحقیقاتی کمیشن، پاور کمپنیوں سے 10 سال کا ریکارڈ طلب

0
181

اسلام آباد:

قرضوں کی تحقیقات کیلیے قائم کردہ انکوائری کمیشن نے پاور کمپنیوں سے 10 سال کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

وزیراعظم کی جانب سے ماضی میں لیے قرضوں کی تحقیقات کیلیے قائم کردہ انکوائری کمیشن کا اجلاس گزشتہ روزیہاں کمیشن کے سربراہ حسین اصغرکی زیرصدارتمنعقد ہوا، اجلاس میں نیپرا کے سابق و موجودہ نمائندوں کے علاوہ پاور ڈویژن ودیگر متعلقہ وزارتوں کے نمائندے اورکمیشن کے ممبران شریک ہوئے، اجلاس میں نجی بجلی پیداکرنیوالی کمپنیوں کے نمائندے بھی شریک ہوئے اور کمیشن کو نجی پاورکمپنیوں کے ایک سال کے اعدادوشمار پیش کیے۔

نجی پاورکمپنیوں کے نمائندوں نے کمیشن کو بتایاکہ اگر وہ اعدادوشمارکی فراہمی کے فارمیٹ میں کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو بھی بتادیں اور جو فارمیٹ کمیشن طے کریگا اس کے مطابق ہر سال کے اخراجات، پیداواری لاگت و منافع وادائیگیوں سمیت دیگراعدادوشمارفراہم کر دیے جائیں گے۔

 

بعدازاں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے آئی پی پیزایسوسی ایشن کی ایگزیکٹوکمیٹی کے ممبرخالدمنصور نے دیگرنمائندوں کے ہمراہ گفتگوکرتے ہوئے بتایاکہ یہ پہلا اجلاس تھا جس میں آئی پی پیزکے نمائندوں نے کمیشن کو سنا ہے اور ایک سال کے اعدادوشمارفراہم کردیے گئے ہیں۔

ان کاکہنا تھا کہ وزیراعظم، کی جانب سے انکوائری کمیشن ملک پر بڑھنے والے قرضوں کی تحقیقات کیلیے قائم کیاگیا تھا جبکہ بطور نجی سرمایہ کار انکا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کمیشن کے ٹی اوآرمیں نجی شعبہ کے سرمایہ کاروں کو طلب کرنا اور تحقیقات کرنا آتا ہے یا نہیں، البتہ کمیشن کی جانب سے پہلے لیٹرموصول ہوا جس میں ڈیٹا مانگا گیا تھا اس لیٹر کے جواب میں ڈیٹا تیارکیا جا رہا تھا تو دوسرا لیٹر آگیا جس میں آئی پی پیزکے نمائندوں کو بلایا گیا تھا ۔ ہم جذبہ خیرسگالی کے تحت آئی پی پیزکے نمائندے کمیشن کے سامنے پیش ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہاکہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ انکے پاورپرچیزاگریمنس پر نظرثانی کرنا ہے تو وہ کرسکتی ہے، اسکے بعدآئی پی پیزدیکھیں گی کہ اس وہ قابل عمل ہیں یا نہیں ہیں۔ ہم مثبت سوچ کے حامل ہیں تاہم آئی پی پیزکے بارے میں منفی پراپیگنڈا بہت زیادہ کیا جا رہا ہے۔ اگرحکومت کیساتھ مسائل حل نہیں ہوتے تو اسکے بعدبالکل معاہدے میں حاصل حق کیمطابق بین القوامی ثالثی ٹربیونل میں جائیںگے لیکن ہماری پوری کوشش ہے کہ مسائل یہیں حل ہوں۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here