نواز شریف کیکر کا درخت ہے !!!

0
78
سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! میں نے اپنی زندگی کے سالوں میں سیاسی لیڈروں اور پارٹی صدورز کے استقبال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ،تین استقبالوں میں خود بھی شریک تھا جن میں عوام کی شمولیت اپنے لیڈروں سے والہانہ عقیدت اور محبت کے جذبہ کی بنیاد پر تھی نہ کوئی قیمہ والا نان ، بریانی کا ڈبہ کرائے کے مزدور ، سفید کپڑوں میں فوجی جوانوں اور پولیسوں کی جبری شمولیت ، میری زندگی کا پہلا استقبال مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کا تھا جہاں لاہور ائیر پورٹ سے لے کر منظر بشیر کی کھوٹی تک انسانی سروں کا ٹھٹھہ مارتا ہوا سیلاب تھا مادرِ ملت کے استقبال کے لئے آنے والے شہریوں کے ہاتھ میں نہ قیمہ والا نان تھا نہ پانی کی بوتل تھی نہ بسوں میں بھر کر لائے ہوئے سیاسی مزدور تھے خالص عوام کی شرکت تھی اور یہ سب کچھ پاکستان کے سب سے پہلے فوجی آمر ایوب خان کے جبر کے نیچے ہوا جہاں ہر قسم کی پابندیاں عائید تھیں ان سب کے باوجود لاہور کا مال روڈ فلک شگاف نعروں سے گونج رہا تھا – دوسرا استقبال ائیر مارشل اصغر خان کا میری آنکھوں نے دیکھا کراچی ائیر پورٹ سے صبح تقریبا بجے شروع ہونے والا یہ جلوس شام سات بجے بنس روڈ پر پہنچا جہاں لوگ ان کی شخصیت سے متاثر تھے نہ قیمہ والا نان نہ سیاسی کرائے پر لائے گئے مزدور نہ میں نے سرکاری قوت کے استعمال سے چھینی ہوئی بسیں میری نظر میں آئیں خالص سیاسی نعروں کی گونج تھی یہ الگ بات کہ راقم ائیر مارشل صاحب کے استقبال پر آنے والوں کا شکریہ جس انداز میں ادا کیا نہیں بھایا خیر یہاں استقبال کا ذکر ہے، حسن اتفاق کے ائیر مارشل کے استقبال کے ایک ہفتے کے بعد پیپلز پارٹی کے سربراہ ذلفقار علی بھٹو کی آمد آمد تھی خدا کی قسم میں بھی ائیر پورٹ پر موجود تھا صرف دونوں لیڈروں کا موازنہ کرنے کے لئے جیسے ہی بھٹو ائیر پورٹ سے باہر آیا کوئی دس بجے یا ساڑھے دس بجے تھے دن کے بھٹو جئے کے نعروں کی گونج میں دوسرے دن صبح کوئی تین بجے کنکری گرائونڈ میں جلوس پہنچا بھٹو سارا دن ساری رات ہاتھ ہلا ہلا کر استقبال کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا رہا لیکن جس نے مجھے اس کی شخصیت سے متاثر کیا وہ یہ کہ دو گھنٹے تک وہ تقریر کرتا رہا،چوتھا استقبالی جلوس محترمہ بے نظیر بھٹو کا تھا جب وہ جرنل ضیا کے کوڑوں کے دور میں جلا وطنی مختصر کر کے لاہور تشریف لائیں، ائیر پورٹ سے میرا خیال ہے ناصر باغ تک انسانی سروں کا سمندر تھا نہ کوئی دیگیں پکیں، نہ کسی کو پیسے دیئے گئے، ورکروں اور عوام کا ہجوم تھا یہ تاریخی استقبال کا احوال تھا جہاں اپنے لیڈروں کے لئے جذبہ عقیدت اور والہانہ پیار شامل تھا ۔قارئین وطن! اب چلتے ہیں نواز شریف کے استقبال کی جانب کس کس انداز میں اس کی آمد کے چرچے ہو رہے ہیں اللہ اللہ اگر چور بھگوڑے جھوٹے شخص کو مسیحی سیاست بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہیں بریانی کے ڈبے کہیں قیمہ والے نان کہیں ہزار کا نوٹ بیانہ پہ بیانہ بدل بدل کر اس کو لیڈر بنا کر دکھایا جا رہا ہے لیکن سب کچھ کرنے کے باوجود کہیں مریم صفدر(نواز) کرائے پر لائے مزدوروں کا جھتہ سے چار سو سے زیادہ نہیں جمع کر سکی اور اس میں بھی عمران خان زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں ابھی حالیہ دو جلسیوں کا حال سب کے سامنے ہے ایک وڈی گلی میں اور دوسرا جوہر ٹان اور جوہر ٹان والا تو اتنا مزاحیہ تھا جیسے کسی نئے نئے دولتی نے اپنا ولیمہ سجایا ہوا ہے اور اب تو یہ سننے میں آیا ہے کہ جو یا بندہ لے کر میاں دے نعرے وجن گے لگائے گا اور یاد گارِ پاکستان میں جمع کرے گا ان کو سی سی موٹر سائیکل تحفہ میں دئے جائیں گے یہ حال ہے اس سیاسی گونگے کی مقبولیت کا جو چھوتی بار وزیر اعظم کا امیدوار گردانتا ہے اپنے آپ کو میں حیران ہوتا ہوں اسٹیبلشمنٹ کے سرکردہ لوگوں پر جن کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ مومن صرف ایک بار ہی سوراخ سے ڈسہ جاتا ہے لیکن اف یہاں تو ہم عوام کو بار بار اسی سوراخ سے ڈسوایا جا رہا ہے مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کروڑ کے ساتھ اور کتنا اسٹیبلشمنٹ کھلواڑ کرنا چاہتی ہے کوئی ان کو سمجھائے کے کیکر کے درخت پر انگوری گچھے نہیں لگتے نواز شریف کو جو مرضی بنا دو جتنی دفعہ وزیر اعظم بنا دو وہ کیکر کا درخت ہی رہے گا اور اس سے عوام کو کرپشن گے سوا کچھ ملنے والا نہیں- اگر اسٹیبلشمنٹ عوام کی خیر خواہ ہے تو بس ایک کام کر دے ہماری عدلیہ کو آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کی اجازت دے دیں اور دوسرا صاف شفاف انتخاب کر وا دیں بغیر کسی کو روکے یقین جانئیے خود بخود ملک اپنی اصل صورت میں آ جائے گا جو ایک کامیاب اور جمہوری ملک کا تقاضا ہے –
مجاہد علی خان آٹارنی
قارئین وطن! میں نے پوچھا کہ زندگی کیا ہے، ہاتھ سے گر کر جام ٹوٹ گیا! بس اتنی ہی زندگی تھی میرے دوست مجاہد علی خان آٹارنی کی ہائے سال کی رفاقت ایک دم توڑ کر چلا گیا مجھے وہ دن یاد ہے جب پہلی دفعہ آصف چوہدری ایڈوکیٹ صاحب کے ساتھ ان کے بڑے بھائی چوہدری صادق جو میرے اصل دوست تھے کہ اسٹور پر ملاقات ہوئی مجاہد فٹ انچ کا ایک خوب روح شخصیت کا مالک تھا پاکستان میں وہ وکالت کے پیشے سے منسلک تھا جب یہاں آیا تو اس نے اسٹور پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی جاری رکھی اور بلآخر ہارورڈ یونیورسٹی سے جے ڈی کر کے امیگریشن کا ایک کامیاب وکیل بنا جب مجھ کو ہفتہ کی شام بیرسٹر رانا شہزاد نے مجاہد کی رحلت کی خبر دی مجھ کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ ایک دن پہلے رانا صاحب ان کو مل کر آ رہا تھا اور پھر موت سے گھنٹے قبل اس سے بات ہوئی اور ایک دوسرے کو کیسیز کے بارے سمجھاتے رہے جب بھی مجاہد خان پاکستان جاتا تو اس کے سارے دفتری معاملات بیرسٹر رانا شہزاد دیکھتا اور اسی طرح جب بیرسٹر صاحب جاتے تو خان صاحب ان کے معملات پر نظر رکھتے واہ خان صاحب!
جانا تھا ہم سے دور بہانے بنا لئے
اب ہم سے اتنی دور ٹھکانے بنا لئے
خان صاحب اللہ پاک آپ کی مغفرت فرمائے کروٹ کروٹ جنت نصیب ہو آپ کی مسکراہٹ آپ کا دھیما پن آپ کا مزاق کرنے کا انداز سب کو یاد آئے گا صرف آپ نہیں ہوں گے اللہ پاک آصف چوہدری ، رانا شہزاد، چوہدری نعیم ، امجد شاہ صاحب ، نواب زادہ میاں ذاکر نسیم اور ان کے تمام احباب اور رفقا کو صبرِ جمیل عطا کرے آمین ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here