جس وقت ہم یہ سطور تحریر کر رہے ہیں عوام الناس خصوصاً پاکستانیوں میں آسٹریلیا کے ہاتھوں بھارت کی بدترین شکست ٹاک آف دی ٹائون ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بھرمار ہے، فلسطین (غزہ) میں اسرائیلی جارحیت اور تباہی و ہلاکتوں پر توجہ ثانوی ہوگئی ہے، البتہ پاکستان کی سیاسی صورتحال اور آئینی و قانونی موشگافیوں کو اپنی مقبولیت و ریٹنگ بڑھانے کیلئے میڈیا کا ہر شعبہ اپنے حساب اور سیاسی تعلق کی بناء پر اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں عدلیہ کے حوالے سے تجزیوں اور تبصروں کا طوفان اُٹھائے ہوئے ہے، ان دنوں آمنہ ملک نامی ایک سماجی خاتون کے سپریم کورٹ کے سینئر جج طارق مسعود کے اثاثوں اور واجبات پر ریفرنس اور سپریم جوڈیشل کونسل میں پیشی موضوع بحث ہے۔ عدلیہ کے مخالفین اس ملاقات کو اپنے مفادات کے حساب سے لے رہے ہیں تو مخالفین اپنے نکتۂ نظر کا ابلاغ کرنے میں مصروف ہیں۔ البتہ شکایت کنندہ کا رد عمل کہ آنے والے وقت میں انصاف چٹا نہیں کالا ہی ہوگا، اس امر کی وضاحت ہے کہ ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ کیلئے عوام کیا سوچتے ہیں اور اس وقت عدلیہ کے کردار پر انہیں کتنا اعتبار ہے؟ اگر قانون و انصاف کے مدارج حالات و مفادات پر مبنی ہوں تو ذہن میں ایک ہی خیال آتا ہے،بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی۔ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں”۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں لاڈلا گردی پر اظہار خیال کرتے ہوئے تاریخی حوالے دیتے ہوئے موجودہ صورتحال کو نوے کی دہائی کا سیکوئیل قرار دیا تھا اس دور کے حالات پر نظر ڈالیں تو اس دور بلکہ بھٹو شہید کے عدالتی قتل سے لے کر آج تک سیاسی اکھاڑ پچھاڑ بلکہ لاڈلا گردی میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عدالتی کردار واضح نظر آتا ہے۔ا یک وقت میں فیصلہ سازوں کا پسندیدہ (لاڈلا) اگلے مرحلہ کا ہدف ہی بن جاتا ہے، پھر اسے انجام تک پہنچانے کیلئے عدالتی راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ موجودہ وقت کا ہدف عمران خان قرار پایا ہے، سینکڑوں مقدمات، ایف آئی آرز اور قید کے مراحل کیساتھ خصوصاً سائفر کیس، 190 ملین پائونڈ کیس، عدت کے دوران شادی کے کیسز کے حوالے سے متعلقہ عدالتوں، نیب، چیف جسٹس اسلام آباد کے روئیے قطعی طور سے جانبدارانہ اور عمران مخالف دوسرے الفاظ میں مقتدرین کے حسب منشاء نظر آتے ہیں۔ عمران خان کے ٹرائلز، ایک الزام سے قانونی بریت یا رعایت کی صورت میں دوسرے الزام میں گرفتاری کے ہتھکنڈے اس حد تک جاری ہیں کہ عمران کی بہنوں کو بھی احتجاج کی آواز بلند کرنا پڑی اور انصاف پر مبنی فیصلوں پر نا امیدی کا اظہار کر دیا ہے۔ دوسری جانب ایئرپورٹ پر ہی بائیو میٹرک کی سہولت بہم پہچائے جانے والے بھگوڑے نوازشریف کو توشہ خانہ، ایون فیلڈ اور العزیزیہ کے کیسز اور نا اہلی سے برآت کیلئے توشہ خانہ کیس میں بیان ریکارڈ کرنے عدالت جاتی امراء جائیگی۔
یہ دورخی صرف اس لئے ہے کہ نوازشریف اس وقت لاڈلا ہے اور عمران اپنی عوامی مقبولیت کے باوجود اصل حکمرانوں کا مبینہ ہدف قرار پایا ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ کو اقتدار سونپنے کا فیصلہ ہو چکا ہے جب ہی تو مقتدرین کے پالتو انتخابی پرندے ایم کیو ایم ، جی ڈی اے، باپ اور عمران مخالف دیگر نہ صرف نواز لیگ کی چھتر چھایا میں آرہے ہیں بلکہ دوسری سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کیخلاف بھی نبرد آزما ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ چودھری شجاعت نے بھی ن لیگ سے اتحاد کا اعلان کر دیا ہے۔ بلاول نے تو احتجاج کرتے ہوئے کہہ دیاہے کہ نواز لیگ کو ہی اقتدار سونپنا ہے تو کروڑوں اربوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے، ہمارا تجزیہ تو اب بھی یہ ہے کہ الیکشن کا یہ تماشہ محض عوام کو مطمئن کرنا ہی ہے 8 فروری کو انتخابی مرحلہ ہنوز دلی دُور ہی ہے۔ ہماری خبر تو یہ بھی ہے کہ اسلام آباد میں اس ایشو پر کہ ن لیگ کو پنجاب سے 90 سے 120 تک نشستیں کس طرح سے دلائی جائیں سر جوڑ لئے گئے ہیں۔ فیصلہ سازوں کی کوشش یہی ہے کہ چھوٹی جماعتوں کی نشستوں کو ملا کر ن لیگ کے اقتدار کو یقینی بنایا جائے۔ فیصلہ سازوں کو تشویش ہے کہ عمران کو قید و بند سے دوچار رکھنے، پارٹی کو تہس نہس کرنے کے باوجود اب بھی عمران کا ووٹ بینک اور عوامی حمایت بدستور ہے اور شفاف و غیر جانبدار انتخابات کی صورت میں ان کے منصوبے پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکیں گے۔ مقتدرین اسی فکر میں ہیں کہ کسی طرح عمران کی مقبولیت کا بُت توڑا جائے، الیکشن سے پہلے عمران کو کڑی سزائیں دے کر اسے نہ صرف انتخابی عمل سے باہر کر دیا جائے بلکہ اسے عوام کی نظر میں معتوب بنانے کیساتھ ساتھ اس کے تنظیمی و تحریکی ڈھانچے کو بھی مخدوش کر دیا جائے لیکن کیا یہ مقتدرین کیلئے آسان ہوگا؟ عوام میں محبوبیت رکھنے والے قائدین (مقتدرین اور منصفین جو اقدامات بھی کر لیں) عوام کے محبوب ہی رہتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے بھٹو اس کی مثال ہے۔ عمران کیخلاف جو کچھ بھی کیا جائے عوام کا کہنا یہی ہوگا!
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
٭٭٭