پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے منشور پیش کر دیئے ہیں۔ دونوں جماعتوں کا دعوی ہے کہ ان کے منشور ملک کو لاحق مسائل کا حل اور ترقی کی ضمانت ہیں۔نوجوانوں، کاروباری طبقے اور خواتین کے لئے خصوصی منصوبے اعلان کئے گئے ہیں۔جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور کچھ دیگر چھوٹی جماعتوں نے بھی منشور پیش کئے ہیں جن میں مسلم لیگ نون اور پی پی پی کی طرح نعروں پر انحصار کیا گیا ہے ، انتخابی منشور میں جو وعدے کئے جا رہے ہیں وہ کب، کیسے مکمل ہوں گے، ان کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے ،اس کا اشارہ تک کسی منشور میں نظر نہیں آتا۔تاہم یہ امر حوصلہ افزا قرار دیا جا سکتا ہے کہ تمام جماعتوں نے عام آدمی کی جانب سے کارکردگی کے متعلق اٹھائے سوال کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ہے، شخصیت پرستی کی بجائے حالیہ انتخابات میں منشور کو اگرچہ پوری اہمیت نہیں ملی پھر بھی اس رجحان کو جمہوریت کے لئے خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے۔ منشور عام طور پر کسی ایک فرد کے نام کے بجائے ایک مشترکہ نقطہ نظر، نظریہ یا مقصد کا اشتراک کرنے والے گروہ کے نام پر لکھا جاتا ہے۔منشور جاری کرنے والے کے ارادوں، مقاصد، یا خیالات کا تحریری اعلان ہے، چاہے وہ فرد، گروہ، سیاسی جماعت، یا حکومت ہو۔ ایک منشور عام طور پر پہلے شائع شدہ رائے یا عوامی اتفاق رائے کو قبول کرتا ہے ۔ یہ اکثر سیاسی، سماجی یا فنی نوعیت کا ہوتا ہے، بعض اوقات انقلابی۔پاکستان کے مخصوص حالات میں سیاسی جماعتیں اپنا کردار آزادانہ انجام نہیں دے سکیں، سیاسی جماعتیں ہمیشہ مقتدر قوتوں کی حمایت سے اقتدار کی خواہاں رہیں اس لئے وہ عوام کی منشا سے لا تعلق رہیں۔ بڑی جماعتوں کا عوام سے رجوع ایک حوصلہ افزا امر ہے۔ مسلم لیگ نواز کے منشور کا اعلان جماعت کے قائد نواز شریف نے ایک تقریب میں کیا۔مہنگائی میں کمی، سستی بجلی ، ایک کروڑ نوکریاں،نیب کا خاتمہ،عدالتی اصلاحات،پارلیمنٹ کی بالادستی،کسانوں کو بلا سود قرضے ،ہر صوبے میں کینسر ہسپتالوں کا قیام نواز دو منشور کا حصہ ہیں۔منشور میں نوجوانوں کی مہارتوں کی نشوونما کے ساتھ “پاکستان کی پہلی سپورٹس یونیورسٹی” اور “250 اسٹیڈیم اور سپورٹس اکیڈمیز” کا قیام اور اسکالرشپ انڈومنٹ فنڈ شروع کرنا بھی شامل ہے۔خارجہ پالیسی کے محاذ پر، مسلم لیگ (ن)نے بھارت سمیت دیگر ممالک کو “امن کا پیغام” بھیجنے کا وعدہ کیا ہے ۔ دیگر ایجنڈوں میں “محفوظ پانی کا مستقبل” اور “برآمدات کے ذریعے معیشت کی بحالی شامل ہیں۔پارٹی کے منشور میں کہا گیا ہے کہ وہ تارکین وطن کے ساتھ مل کر پاکستان کی تعمیر نو کرے گی۔پارٹی مزید خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام متعارف کرانے اور تعلیمی اصلاحات کے ساتھ ”ڈیجیٹل ترقی”لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے منشور میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کا مقابلہ کرنا اور محنت کشوںکے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے نئی لیبر پالیسی متعارف کرانے کا عزم بھی کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیری رحمان نے پارٹی کے انتخابی منشور کے اہم نکات میڈیا کو فراہم کئے ہیں۔یہ وہی نکات ہیں27 دسمبر کو بلاول نے جن کا اعلان کیا تھا، اس منشور میں وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر پی پی پی اقتدار میں آئی تو پانچ سال کے عرصے میں تنخواہوں میں دو گنا اضافہ کرے گی۔ پسماندہ افراد کو 300 یونٹس تک مفت شمسی توانائی فراہم کرنا، ہر ضلع میں گرین انرجی پارک قائم کرنا، یونیورسل ایجوکیشن کے حصول پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے منصوبوں کو نافذ کرنا بنیادی وعدے ہیں۔پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے پورے پاکستان میں صحت کی مفت خدمات کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ سیلاب سے متاثرہ افراد اور غربت میں زندگی گزارنے والوں کے لیے تیس لاکھ مکانات کی تعمیر، بی آئی ایس پی کے دائرہ کار کو وسیع کرنا، کسانوں کے لیے بی آئی ایس پی جیسا پروگرام شروع کرنا منشور میں شامل ہے۔شیری رحمان کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے پہلے سے اعلان کردہ ان نکات کو صرف ایک منشور بنانے کے لیے اکٹھا نہیں کیا گیا ہے اس کے بجائے منشور کو سوچی سمجھی رائے سے تقویت ملتی ہے کہ ہمارے انسانی سرمائے اور وسائل کے اسٹریٹجک ری سیٹ کے لیے عوامی مطالبات کے ایجنڈے کو کس طرح اقتصادی حیثیت میں پیش کیا جائے اور شہریوں کی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے لیے قدر میں اضافہ کیا جائے۔ تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، خواتین کے حقوق، سماجی تحفظ، انسانی حقوق، جمہوریت، قانون کی حکمرانی، خوراک کی حفاظت، توانائی، موسمیاتی تبدیلی اور خارجہ پالیسی سے متعلق تیرہ ابواب میں تقسیم، منشور کا دعوی ہے کہ یہ ایک جامع منصوبہ ہے۔ دونوں جماعتوں کے منشورات کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو کئی ایسے نعرے موجود نہیں جو جلسوں میں وعدوں کی صورت پیش کیئے جارہے ہیں، اس سوال کا جواب نہیں کہ منشور پر عمل درآمد کے لئے فنڈز کہاں سے آئیں گے اور پہلے سے موجود بھاری قرضوں سے کیسے جان چھڑائی جائے گی۔پیپلز پارٹی پچھلے پندرہ سال سے متواتر سندھ میں حکمران ہے لیکن سندھ کا انفراسڑکچر اور عام آدمی کی حالت دوسرے صوبوں کے ووٹروں کے سامنے کارکردگی کی اچھی تصویر پیش نہیں کرتی۔مسلم لیگ ن نے آبی ذخیروں ، آبادی کنٹرول، موسمیاتی تبدیلیوں ، نئے سٹیڈیم بنانے جیسے نکات شامل کر کے نئے چیلنجز کے متعلق اپنی حکمت عملی پر توجہ دی ہے۔پیپلز پارٹی نے بے نظیر انکم سکیم پر ایک بار پھر تکیہ کیا ، پارٹی کی نوجوان قیادت ملک کو لاحق نئے مسائل کے متعلق تسلی بخش وژن پیش نہیں کر سکی۔
٭٭٭