ڈیموکریٹس کی
گیم چینجر پالیسی!!!
ڈیموکریٹس نے امیگریشن کارڈ کو کھیلتے ہوئے آئندہ الیکشن میں اپنے لیے کامیابی کو یقینی بنانے پر کام شروع کر دیا ہے ، خاص طور پر غیرملکیوں اور ملکی افراد کی ویزا درخواستوں کے اوقات کو کم کرنا بڑی کامیابی ہے ، جس سے لوگوں کی بڑی تعداد ڈیموکریٹس کی حامی بن رہی ہے اور ان کے ووٹ بینک میں مزید اضافہ ہو رہا ہے ، امیگریشن سے وابستہ افراد بھی ڈیموکریٹس کی اس پالیسی کو ووٹ بینک بڑھانے کیلئے اچھا عمل قرار دے رہے ہیں ۔ نیچرلائزیشن کے عمل کو تیز کرنے پر ڈیموکریٹس کی توجہ کو اپنی انتخابی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اسٹریٹجک اقدام کے طور پر دیکھا جاتا ہے، خاص طور پر فلوریڈا جیسی ریاستوں میں، جہاں بڑی تعداد میں تارکین وطن شہریت کے اہل ہیں۔نائب صدر کملا ہیرس جامع امیگریشن اصلاحات کی ایک آواز کی حمایتی رہی ہیں، جو مضبوط سرحدی حفاظت اور شہریت کے حصول کے راستے کی وکالت کرتی ہیں۔ اس کا موقف امیگریشن پالیسیوں کے ذریعے نئے ووٹروں کو متحرک کرنے کی وسیع تر جمہوری حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے۔جوں جوں الیکشن قریب آتا جا رہا ہے، ووٹروں کی تشکیل میں ان نئے فطری شہریوں کے کردار کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کی جائے گی، دونوں جماعتوں کو انتخابات کے نتائج پر ممکنہ اثرات کا باخوبی علم ہے لیکن ڈیموکریٹس کو امیگریشن پالیسیوں کی وجہ سے حریفوں پر برتری حاصل ہوگی ۔رواں برس ڈیموکریٹس نے امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم لگ بھگ ان پانچ لاکھ تارکین وطن کے لیے شہریت کا ایک راستہ کھولنے کا اعلان کیا جو کسی امریکی شہری کیشریک حیات ہوں۔اس اقدام سے تقریباً پانچ لاکھ جوڑوں اور ایسے 50,000 بچوں کو فائدہ ہو گا جن کے والدین نے کسی امریکی شہری سے شادی کی ہو۔،اس پالیسی سے استفادہ کرنے کا اہل ہونے کے لیے، کسی بھی امیگرینٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ 10 یا اس سے زیادہ سال سے امریکہ میں مقیم ہو اور 17 جون 2024 تک اس کی شادی قانونی طور پر کسی امریکی شہری سے ہو چکی ہو۔ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی کی طرف سے تارکین وطن کی درخواست کے جائزے کے بعد منظور شدہ افراد کے پاس مستقل رہائش کے لیے درخواست دینے کے لیے تین سال کا وقت ہوگا۔اس عرصے کے دوران وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ امریکہ میں رہنے کے ساتھ ساتھ ورک پرمٹ حاصل کرنے کے بھی اہل ہوں گے۔اس پروگرام نے بچپن میں امریکہ لائے گئے ان لاکھوں افراد کو جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں تھیں ، ملک بدری سے بچایا ہے۔ ایسے افراد کو اکثر “ڈریمرز” یعنی خواب دیکھنے والے کہا جاتا ہے۔بائیڈن نے چار جون کو وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب میں عندیہ دیا تھا کہ وہ آنے والے ہفتوں میں امیگریشن سسٹم کو مزید “منصفانہ” بنانے کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔ڈیموکریٹس کی امیگریشن پالیسی سے جنتے بھی افراد امریکی کی شہریت حاصل کر رہے ہیں یا قانونی دائرہ کار میں آ رہے ہیں سب کے سب ڈیموکریٹس کے ووٹرز کے طورپر سامنے آئیں گے ، اپنے دور حکومت میں بائیڈن کی امیگریشن پالیسی سے لاکھوں غیرقانونی تارکین امریکی شہریت حاصل کر چکے ہیں جس سے ڈیموکریٹس کے ووٹ بینک میں مزید اضافہ ہو رہا ہے ، ڈیموکریٹس کی دوستانہ امیگریشن پالیسیوں کی وجہ سے غیرقانونی تارکین کی بڑی تعداد جو کہ اکثر امریکہ سے کینیڈا کا رخ کرتی تھی اب سنبھل گئی ہے اور امریکہ میں ہی قیام کرنے پر ترجیح دیتی ہے کیونکہ کینیڈا میں امریکہ کی نسبت زیادہ امیگرنٹ دوست پالیسیاں ہوتی ہیں ۔2005 میں کینیڈا اور امریکہ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت اگر کوئی شخص امریکہ سے گزر چکا ہے تو وہ کینیڈا میں جا کر پناہ حاصل کرنے کی درخواست نہیں کر سکتا لیکن اس معاہدے میں ایک سقم موجود ہے کہ اگر وہ شخص کسی سرکاری چیک پوائنٹ سے گزرے بغیر کینیڈا پہنچ جاتا ہے تو پھر وہ پناہ حاصل کرنے کی درخواست دے سکتا ہے۔ اسی لیے لوگ روکس ہیم روڈ کا سفر کرتے ہیں اور کینیڈا پہنچ کر حراست میں لیے جانے پر پناہ کی درخواست دیتے ہیں۔مارچ میں کینیڈا اور امریکہ نے طے کیا کہ اب اس طرح سے آنے والوں کو بھی فوری طور پر پناہ نہیں دی جائے گی اور ایسے شخص کو حراست سے قبل کم از کم 14 دن تک اس ملک کی زمین پر موجود رہنا ہو گا جس کے بعد وہ پناہ کی درخواست دینے کا اہل ہو گا۔دوسری جانب امریکہ کی میکسیکو کے ساتھ جنوبی سرحد پر حالات کافی سخت ہیں۔ امریکی حکومت نے 2020 سے تارکین وطن کی آمد اور پناہ کی درخواستوں کی تعداد میں کمی لانے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے ہیں، اب جو بھی ایسی درخواست دیتا ہے، اسے میکسیکو میں ہی رہنا پڑتا ہے۔
٭٭٭